اسلام آباد : سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ستائیس جولائی تک الیکشن ممبران کی تقرری کا حکم دیدیا جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہما را مقصد آئین پر عمل درآمد ہے ،وزیر اعظم ملک میں ہو یا نہ ہو اس سے کوئی سروکار نہیں ،ہم نہیں چاہتے چھ سال تک یہ مسئلہ بھی چلتا رہے پہلے ہی مردم شماری بھی آٹھ سال سے نہیں ہوئی حکومت 12جون سے قبل الیکشن کمیشن کے ممبران کے تعیناتی کا مرحلہ مکمل کر لیتی تو الیکشن کمیشن غیرفعال نہ ہوتا ۔ الیکشن کمیشن کے اراکین کی تعیناتی کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت جمعرات کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل بنچ نے کی مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ 12 جون کو ممبران ریٹائر ہوئے تھے ،آئینی مدت 45 دن ہے جو ستائیس جولائی تک ہے، اس پر چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کو اس مرحلے کو پہلے ہی مکمل کر لینا چاہیے تھا ، تاکہ ادارہ غیر فعال نہ ہوتا ، 12جون سے قبل کام مکمل کیوں نہیں کیا ؟اس پر حکومتی وکیل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ملک سے باہر تھے جس سے ارکان کے تقرر میں تاخیر ہوئی تاہم اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت جاری ہے ۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور اپوزیشن کی ملاقاتوں سے عدالت کو کوئی لینا دینا نہیں ،ہمارا مقصد آئین پر عمل درآمد ہے ، وزیر اعظم ملک میں ہو یا نہ ہو اس سے کوئی سروکار نہیں ،ہم نہیں چاہتے چھ سال تک یہ مسئلہ چلتا رہے مردم شماری بھی آٹھ سال سے نہیں ہوئی ، اس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ اس حوالے سے مردم شماری والے کیس میں جمعہ کو ہونے والے آئندہ سماعت پر تفصیلی جواب داخل کرایا جائے گا ،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے ساتھ کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو سننے کے بعد حکومت کو ہر صورت 27جولائی تک ممبران کی تعیناتی کا حکم دیدیا ہے ، سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق درخواست پر الیکشن کمیشن کی جانب سے بنایا گیا ضابطہ اخلاق کو تمام سیاسی جماعتوں سے مکمل مشاورت اور حتمی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی ۔مقدمہ کی سماعت جمعرات کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو تحریک انصاف کے وکیل احمد اویس نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عام انتخابات میں خرچہ کرنے سے متعلق عدالت فیصلہ دے چکی ہے، عام انتخابات سے زیادہ ضمنی انتخابات میں خرچہ ہوتا ہے، ہمارا یہ خیال ہے کہ انتخابات کے دوران جلسے جلوسوں پر پابندی عائد ہونی چاہیئے، درخواست گزار کے وکیل بلال منٹو کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں ساری ایکٹوٹیز پر پابندی لگائی گئی ہے جس کو الیکشن کمیشن غلط سمجھتا ہے، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کہ اگر ہر کام الیکشن کا روک دیا گیا ہے تو پھر الیکشن ہی روک دیں اگر صرف سرکاری ٹی وی پر اشتہار چلایا جائیگا تو کون دیکھے گا، سرکاری ٹی وی تو کوئی نہیں دیکھتا، اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ الیکشن لڑیں لیکن اس میں بے انتہا خرچہ کرنا کہاں کا انصاف ہے، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے درخواست گزار کے وکیل لہجے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اونچی آواز سے بات نہ کریں ۔ اونچی آواز سے بات کرنے کا مطلب آپ کے پاس دلائل ختم ہو گئے ہیں جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی باتیں کرنے سے گریز کریں جو غیر متعلقہ ہوں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ کہ ہم نے اصلاحات سے متعلق ایک پروگرام بنایا ہے، وال چاکنگ۔ بینر، پوسٹر، ہولڈینگز اور بل بورڈز کی موجودگی اور استعمال پر پابندی کی سفارش کی ہے، جلسے اور جلوسوں پر مکمل پابندی ہونی چایئے اور کارنر میٹنگ کی اجازت وہ بھی انتظامیہ کی اجازے سے مشروط ہو، فریقین کو سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کابنایا گیا ضابطہ اخلاق تمام سیاسی اور انتخاب لڑنے والی پارٹیوں کے ساتھ مشاورت کے لئے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مشاورت کے بعد حتمی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرکے مقدمہ کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی، حکومت نے ملک بھر میں مردم شماری سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت مردم شماری کے لیے تیار ہے ، فوج کی مصروفیت کی وجہ سے مردم شماری میں تاخیر ہو رہی ہے ، فوج مختلف محازوں پر دہشتگروں کیخلاف جنگ میں نبردآزما ہے ،فوج کے ایک لاکھ 67ہزار اہلکاروں کی ضرورت ہے فوج کی یقین دہانی کے بعد نئی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا ۔ جمعرات کے روز وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ (اے او آر) فیض الرحمن کے ذریعے جمع کرائی گئی رپورٹ میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مردم شماری کے لحاظ سے ملک کو ایک لاکھ 67 ہزار یونٹس پر مشتمل کیا گیا ہے جس میں ایک یونٹ دو سے ڈھائی سو گھرانوں پر مشتمل ہے ،ایک یونٹ کی مردم شماری کے لئے شمار کنندہ کے ساتھ پاک فوج کے جوان رکھنا لازمی ہیں جبکہ شمار کنندہ دو لاکھ سے زائد درکار ہیں تاہم اس وقت فوج ضرب عضب سمیت مختلف محازوں پر دہشتگردوں کے خلاف جنگ کر رہی ہے۔فوج کے مصروف ہونے کی وجہ سے مردم شماری میں تاخیر ہو رہی ہے ،حکومت مردم شماری کے لئے تیار ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی ادارہ شماریات کو سکیورٹی کے علاوہ باقی امور کے لئے اخراجات جاری کئے جاچکے ہیں۔ سول سائیڈ سے متعلق تمام کام مکمل ہے۔نئی تاریخ کا اعلان فوج کی یقین دہانی کے بعد کیا جائیگا، یاد رہے کہ مردم شماری سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج جمعہ ہوگی ،چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل دو رکنی بنچ سماعت کریگا،واضح رہے کہ رپورٹ جمعرات کو جمع کرانے کی کوشش کی گئی لیکن دفتر نے زبانی اعتراض کرکے واپس کردی جس پر اے او آر کے یقین دہانی کے بعد جمع کرلی گئی ۔