انقرہ: ترکی میں فوج کے ایک باغی گروپ نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی جسے ترک صدر کی اپیل پر عوام، پولیس اور جمہوریت پسند فوج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا جب کہ باغیوں کی جانب سے فائرنگ اور بم دھماکوں کے واقعات میں 17 پولیس اہلکاروں سمیت 42 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی بھی ہوئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترک فوج کے ایک باغی گروہ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جسے ترک عوام، پولیس اور فوج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔ ترک حکومت نے تمام اداروں کا کنٹرول دوبارہ سے حاصل کر لیا ہے جب کہ استنبول ایئرپورٹ پر معطل فلائٹ آپریشن بھی بحال کر دیا گیا ہے۔ ترک کے اقلیتی فوجی گروپ کی جانب سے گن شپ ہیلی کاپٹرز سے فائرنگ اور جیٹ طیاروں سے بمباری کے واقعات میں 17 پولیس اہلکاروں سمیت 42 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
بغاوت کی کوشش ناکام ہونے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک اقلیتی فوجی گروپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جسے عوام، پولیس اور جمہوریت پسند فوج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں اور جمہوریت میں عوام کی طاقت سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہوتی، فوج کو بتانا چاہتا ہوں کہ انھیں بھی عوام کی خواہش کے مطابق کام کرنا ہو گا، باغیوں کو پنسلوانیا سے احکامات مل رہے ہیں، جس ہوٹل میں قیام پزیر تھا اس پر بھی بمباری کی گئی لیکن اب میں عوام میں موجود ہوں، آرمی چیف اس وقت کہاں ہوموجود ہیں اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں۔
رجب طیب اردگان کا کہنا تھا کہ فوج کو دشمن کے خلاف استعمال کے لئے اسلحہ اور ٹینک دیئے لیکن اقلیتی فوجی گروہ نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر بغاوت کی، جن لوگوں نے بغاوت کی انھیں سخت سزا دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ اپنی فوج سے گندے عناصر کا خاتمہ کیا جائے، باغی فوجی گروہ کے 120 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، دیگر باغی لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ خود سے گرفتاری دے دیں تو انھیں عدالت سے کم سے کم سزا دلوانے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ترکی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن میں بتایا چاہتا ہوں کہ آج کا ترکی بہت مختلف ہے، ترکی کی خوشحالی کا سفر جاری رہے گا۔
ترک وزیراعظم بن علی یلدرم کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ حکومت نے بغاوت کی کوشش مکمل طور پر ناکام بنادی ہے تاہم کچھ مقامات پر فائرنگ کے واقعات پیش آ رہے ہیں جن پر کنٹرول کی کوشش کی جا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باغیوں کے کنٹرول میں موجود گن شپ ہیلی کاپٹرز اور جیٹ طیاروں کو مار گرانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں جب کہ جنرل امیت دندار کو فوج کا قائم مقام سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔
ترکی کے مقامی میڈیا کے مطابق ترک فوج کے ایک باغی گروپ نے ملک میں جمہوری حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی اور اس حوالے سے ملک کا انتظام سنبھالنے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔
ترک فوج کے باغی گروپ کی جانب سے جاری بیان میں اقتدار سنبھالے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہماری کارروائی مصر کی فوجی بغاوت سے مختلف ہے، ملک میں آئینی و جمہوری انسانی حقوق کی بحالی اور جمہوری اقدار کے لیے اقتدار سنبھالا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ترکی تمام ممالک سے اپنے تعلقات جاری رکھے گا، انسانی حقوق کا احترام کیا جائے گا اور خارجہ امور سے متعلق بھی تعلقات قائم رکھیں گی جب کہ قانون کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق فوج کے ایک مسلح باغی گروپ نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی جس میں کرنل رینک کے افسران شامل تھے، اس گروپ کی جانب سے استنبول کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں کئی رہنماؤں کو یرغمال بنالیا گیا اور ترک فوج کے سربراہ جنرل حلوثی آکار سمیت دیگر جرنیلوں کو نظر بند کردیا گیا تاہم ترک حکومت کی حامی سرکاری فوج نے کارروائی کرتے ہوئے باغیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا اور یرغمالیوں کو بازیاب کرالیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق باغی فوجی گروپ کے اہلکاروں کی جانب سے ایوان صدر اور پارلیمنٹ کا بھی محاصرہ کیا گیا، اتاترک ایئرپورٹ پر تمام پروازیں منسوخ کردی گئیں اور ایئرپورٹ کو بند کردیا گیا، ملک بھر کے ایئرپورٹس بند کرکے ان پر ٹینک پہنچادیئے گئے، باغی فوج کی بھاری نفری نے ملک کے اہم مقامات کا کنٹرول سنبھال لیا جب کہ فوجی گروپ نے ترکی کے سرکاری ٹی وی پر بھی قبضہ کرلیا۔
ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملک میں فوجی بغاوت کے بعد مارشل لاء نافذ کرکے کرفیو لگانے کا اعلان کیا گیا جب کہ صدر اور وزیراعظم کے دفاتر پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ سرکاری میڈیا کے مطابق باغی فوجی گروپ کا کہنا تھا کہ ملک کا نیا آئین جلد تیار کرلیا جائے گا اور جب تک ملک کا نظم و نسق امن کونسل چلائے گی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکی میں فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب سمیت سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس بند کردی گئی ہیں اور ملک میں مواصلاتی نظام مکمل طور پر بند کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو بھی بند کردیا گیا ہے۔ ترک دارالحکومت انقرہ میں فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے پولیس ہیڈ کوارٹر پر دھماکے اور فائرنگ کی جس کے بعد شہر دھماکوں کی زوردار آوازوں سے گونج اٹھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق باغیوں کی جانب سے پارلیمنٹ پر بھی حملہ کیا گیا جس میں دھماکے اور فائرنگ کی آوازی سنی گئیں اور اس کے نتیجے میں 12 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
فوج کے ایک گروپ کی جانب سے بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملک کے نجی میڈیا پر بذریعہ ٹیلی فون قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادیں گے اور اس طرح کا قدم اٹھانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے، بغاوت کی کوشش کرنے والوں کو کچل دیں گے اور صورتحال پر جلد قابو پالیں گے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ باغی فوجی گروپ جلا وطن رہنما فتح اللہ جولان کے حامی ہیں جو امریکا میں مقیم ہیں۔
ترک صدر نے اپنے خطاب میں عوام سے اپیل کی کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادیں۔ ترک صدر کی اپیل کے بعد ملک میں کرفیو کے اعلان کے باوجود عوام کی بڑی تعداد رات گئے استنبول کے تقسیم اسکوائر اور انقرہ سمیت دیگر شہروں میں نکل آئی اور ترک صدر کی حمایت میں نعرے بازی شروع کردی، ترک عوام باغی گروپ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے، فوجی اہلکاروں کو عوام کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، عوام کی بڑی تعداد آگے بڑھتے ہوئے فوجی ٹینکوں پر ڈنڈے برسانا شروع کردیئے اور بعض لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، وزیراعظم ہاؤس کی جانب جانے والے ٹینکوں کو عوام کی بڑی تعداد نے سامنے آکر روک لیا، عوام وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے والے ٹینکوں پر چڑھ گئے جس کے باعث ٹینکوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترک فوج کے ایف 16 طیارے نے باغی گروپ کا گن شپ ہیلی کاپٹر مار گرایا جس کے بعد باغی ٹولے کے گن شپ ہیلی کاپٹر نے پولیس اور عوام پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 17 پولیس اہلکار جاں بحق اور متعدد شہری زخمی ہوگئے۔ خبر ایجنسی کے مطابق انقرہ کے ایئرپورٹ میں داخل ہونے والے فوجیوں کو عوام نے باہر نکال دیا جب کہ استنبول میں پولیس ہیڈ کوارٹر میں گھسنے والے باغی اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
ترک وزیراعظم علی بن یلدرم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ فوج کے ایک گروپ نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی ہے اور جس گروپ نے یہ کارروائی کی اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی، سیکیورٹی فورسز اس گروپ سے نمٹ لیں گے اور ہم اقتدار واپس لے کر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ باغی فوجی ملک کے غدار ہیں، جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ملٹری قیادت نے فوجیوں کو بیرکوں میں واپس جانے کا حکم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی کوئی تیسری دنیا کا ملک نہیں ہم اس طرح کی صورتحال سے نمٹنا جانتے ہیں۔
ترکی کے نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت منتخب جمہوری حکومت ہی قائم ہے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی حامی فوج باغی ٹولے پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے، فوج کے باغی گروپ کے پاس چند ٹینک اور ہیلی کاپٹر ہیں اور اسی کے سہارے انہوں نے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس باغی گروپ کے عزائم کو جلد ناکام بنادیا جائے گا، آمریت کو ہر صورت پیچھے دھکیل دیں گے، باغیوں کا ٹولہ زیادہ تر علاقوں میں ناکام ہوگیا ہے، ایسے باغیوں کو شرمناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
استنبول کے گورنر کے مطابق فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا ہے اور عوام کی طاقت سے باغی فوجیوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے جب کہ حکومت کی حامی سرکاری فوج کا کہنا ہےکہ سرکاری ٹی وی سے باغی گروپ کا قبضہ ختم کرادیا گیا ہے اور عوام چھوٹے سے باغی ٹولے سے نہ ڈریں کیونکہ ان کے عزائم کو ناکام بنادیا جائے گا۔
ترک خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے ملک میں بغاوت ناکام بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ باغی فوجیوں کو سرکاری عمارتوں سے باہر نکال دیا گیا ہے اور بڑی تعداد میں باغی فوجی گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ترک فوج نے سرکاری ٹی وی کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا جب کہ سرکاری ٹی وی کے دفتر اور صدارتی محل میں گھسنے والے باغی فوجیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ترک وزیراعظم کا کہنا ہےکہ چیف آف آرمی اسٹاف اور کمانڈوز نے صورتحال پر قابو پالیا ہے جس کے بعد انقرہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرکے اسے نو فلائی زون قرار دے دیا گیا ہے۔
ترک وزیراعظم کا کہنا ہے کہ بغاوت کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا ہے اور اب صورتحال کافی حد تک کنٹرول میں ہے۔ ترک صدر نے کہا ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی، بغاوت کو مکمل طور پر ناکام بنادیا گیا ہے، باغی فوجیوں پر مقدمے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں جب کہ ہتھیار ڈالنے والوں کو کم سزا دی جائے گی۔ ترک حکومت کے اعلان کے بعد باغی فوجیوں نے استنبول اور انقرہ میں ہتھیار ڈال دیئے ہیں، پولیس کی جانب سے باغی فوجیوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان 2003 سے اقتدار میں ہیں وہ 2014 میں وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑ کر صدر بنے، رجب طیب اردگان ملک میں صدارتی نظام کے حامی تھے اور ملک میں نیا آئین بنانا چاہتے تھے جب کہ رجب طیب اردگان فوجی مداخلت کے بھی شدید مخالف تھے۔
ترک عوام نے باغی فوجی گروپ کی اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادی
وقتِ اشاعت : July 16 – 2016