|

وقتِ اشاعت :   August 6 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی نے صوبے میں بجلی لوڈشیڈنگ خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح نیچے گرنے کے باعث زراعت کو ہونے والے نقصان کے پیش نظر صوبے کوآفت زدہ قرار دینے بارے مشترکہ قرار داد منظور کرلی ۔قرار داد ایوان میں پرنس احمد علی نے پیش کی۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان کی معیشت کا70فیصد انحصار زراعت پر ہے جبکہ ضلع لسبیلہ جو صوبے کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے بدقسمتی سے خشک سالی کی وجہ سے ضلع لسبیلہ کی زراعت اور مال مویشی تباہ کن حد تک متاثر ہوئے ہیں نیز زراعت کا زیادہ تر انحصار ٹیوب ویلوں پر ہے لیکن بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے زراعت کا شعبہ مزید تباہی سے دوچار ہوا ہے دوسری جانب وولٹیج کی کمی کے باعث ٹیوب ویلوں کے برقی آلات جلنے کی وجہ سے زمینداروں کو مالی نقصانات بھی اٹھانے پڑرہے ہیں جسکی وجہ سے زراعت اور مال مویشی سے وابستہ لوگوں کا ذریعہ معاش معدوم ہونے کا اندیشہ ہے عوام کو موجودہ جمہوری حکومت سے دیگر توقعات کے ساتھ ساتھ یہ توقع بھی ہے کہ وہ صوبے میں زرعی اصلاحات اور گلہ بانی کے لئے بھی انقلابی اقدامات اٹھائے گی قرار داد میں صوبائی حکومت سے یہ سفارش کی گئی تھی کہ وہ ضلع لسبیلہ کے عوام کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے آفت زدہ قرار دے خصوصی پیکج کے اعلان کے ساتھ پی ڈی ایم اے کو ہدایت کرے کہ وہ زراعت اور گلہ بانی کی بحالی کے لئے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھائیں تاکہ ضلع لسبیلہ کے عوام کی مشکلات کا سدباب ممکن کیا جاسکے۔قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارا خطہ اور پوری دنیا موسمی تبدیلی سے گزرر ہا ہے امریکہ میں اس پر کام ہورہا ہے خشک سالی اور قحط سے پورا بلوچستان متاثر ہورہا ہے بارشوں کی کمی کی وجہ جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ہے دوسری جانب ٹیوب ویل اور دیگر ذرائع سے پانی کا بے دریغ ااستعمال بھی ہے جس سے مختلف مسائل پیدا ہورہے ہیں گزشتہ سال یونیورسٹی آف بلوچستان اور یو این ڈی پی کی مشترکہ کمیٹی نے سروے کرنے کے بعد جو رپورٹ دی تھی وہ انتہائی الارمنگ ہے جس طرح کوئٹہ میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے وزیراعلیٰ نے ایک میگا منصوبہ دیا ہے پورے صوبے کے لئے اس طرح کے اقدامات کئے جائیں ۔مسلم لیگ(ن) کے غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ اس قرار داد میں پورے صوبے کا ذکر ہونا چاہئے بلوچستان بھر میں جنگلات کاٹے جارہے ہیں جس سے پورا بلوچستان ایک خشک علاقے میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ہمارے صوبے میں لوگوں کی اکثریت کا انحصار زراعت اور لائیوسٹاک پر ہے مگر اب جو صورتحال بن رہی ہے اس سے وہ تمام لوگ متاثر ہورہے ہیں جو زراعت یا گلہ بانی سے منسلک ہیں عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان بھر میں تقریباً یہی مسئلہ ہے صرف نصیرآباد اور جعفرآباد کے اضلاع کو چھوڑ کر جہاں زراعت کے لئے نہری پانی استعمال ہوتا ہے باقی پورے صوبے میں زراعت کا انحصار ٹیوب ویلوں پر ہے مگر پہلے تو بجلی دستیاب نہیں اگر بجلی ہو بھی تو زیر زمین پانی مسلسل نیچے جارہا ہے اس صورتحال میں حکومت کو اقدامات اٹھانے ہوں گے ہمارے صوبے کی زراعت اور لائیوسٹاک کو بچانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے اور حکومت کو چاہئے کہ اس کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے مون سون کی بارشیں ہمارے ہاں بہت ہوتی ہیں مگر سارا پانی ضائع ہوجاتا ہے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیموں کی ضرورت ہے اس حوالے سے میگا پراجیکٹس کی ضرورت ہے ۔پینل آف چیئرمین کے رکن آغا سید لیاقت نے اراکین کی مشاورت سے قرار داد کو اس ترمیم کے ساتھ منظور کرلیا کہ پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دیا جائے قبل ازیں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہاہے کہ سیاستدانوں پر الزامات کوئی نئی بات نہیں ،پرویز مشرف دور میں ہماری تصویریں لگا کر کردارکشی کی جاتی رہی ،ان کی کوشش تھی کہ ہم سب نااہل ہوجائیں مگر ہمت نہیں ہاری ،جیل سیاستدانوں کا دوسرا گھر ہے وہ جیلوں سے نہیں گھبراتے ،میر خالد لانگو عدالتوں کا سامنا کریں ،ان خیالات کااظہارانہوں نے جمعہ کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سابق مشیر خزانہ میر خالد لانگو کے مستعفی ہونے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔جمعہ کے روز بلوچستان اسمبلی کااجلاس اسپیکر اسمبلی راحیلہ حمیددرانی کی زیرصدارت تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا تو ذاتی وضاحت پر اظہار خیال کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے مستعفی مشیر خزانہ میر خالد لانگو نے کہا کہ وہ 73دنوں تک نیب کی تحویل میں رہے اور انہیں اچھے اور برے ہر دو طرح کے تجربات کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے نیب کے ایک افسر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھے گرفتار کیا ان کا نام محسن ہے اور ان کا رویہ بھی میرے ساتھ محسنوں جیسا رہا 73دنوں کے دوران نیب حکام اور اہلکارو ں کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا رہا انہوں نے کہا کہ نیب والوں نے کبھی میری عزت نفس کو مجروح نہیں کیا میں نیب کی تحویل میں تھا اور میرے پاس ٹی وی تھا نہ اخبار مگر اس دوران سوشل میڈیا پر میرے خلاف بہت سی ایسی باتیں پھیلائی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ کہا گیا کہ میں کہیں بھاگ گیا ہوں میں بھاگنے والا نہیں ہوں میں نے عزت کی زندگی مانگی ہے اور عزت کی موت مانگتاہوں میں کہیں نہیں گیا انہوں نے کہا کہ دس سال پہلے کی چیزیں سوشل میڈیا پر چلائی گئیں ہم نے نادانی میں ملک کے خلاف باتیں کی ہوں گی مگر ہم اس ملک کے وفادار ہیں2013ء میں منتخب ہونے کے بعد میں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف لیا ہے مجھے اپنے لوگوں سے محبت ہے اور انہوں نے مجھے جو مینڈیٹ دیا ہے میں نے اس کا حق ادا کیا ہے محکمہ خزانہ میں جو مسئلہ ہوا ہے وہ پورے صوبے کے لئے ایک آزمائش ہے ۔انہوں نے تقریر ختم کرتے ہوئے کہا کہ اخلاقی طور پر میرے اسمبلی کا رکن رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا اس لئے میں اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں میں اپنے علاقے خالق آباد جاؤں گا اور اپنے عوام سے رجوع کروں گا ۔ میر خالد لانگو مستعفی ہونے کا اعلان کرکے بیٹھے تو اکثراراکین بیک وقت بولنے لگے جس کے بعد وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے ایوان میں کھڑے ہو کرکہا کہ میرخالد لانگو یہ فیصلہ واپس لیں انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں پر الزامات لگتے رہتے ہیں آپ کا حق ہے کہ آپ کیس لڑیں سیاستدانوں پر ہمیشہ الزامات لگتے رہے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں روزانہ اخبارات میں تصویر لگا کر ہماری کردار کشی کی جاتی رہی ہم نے عدالتوں کا سامنا کیا پرویز مشرف کی کوشش تھی کہ ہم سب نااہل ہوجائیں مگر ہم نے ہار نہیں مانی اور آج یہاں اس ایوان میں بیٹھے ہیں انہوں نے کہا کہ میں قائد ایوان اور ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے لیں جیل تو سیاستدانوں کا دوسرا گھر ہے سیاستدان جیلوں سے نہیں گھبراتے ،آپ عدالتوں میں سامنا کریں۔ جمعیت علماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے بھی ان سے اعلان واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اپوزیشن اراکین کی طرف سے میر خالد لانگو سے کہتا ہوں کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں کیونکہ ان کا اس طرح سے ایک استعفیٰ دینا ان لوگوں کی توہین ہے جنہوں نے آپ کو پانچ سالوں کے لئے مینڈیٹ دیا اور اسمبلی میں بھجوایا سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ خالد لانگو نے نیب کی تحویل میں73دن گزارے میں نے 90دن گزارے ہیں وہ بھی پرویز مشرف کے سیاہ دور میں جب ہمیں کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی انہوں نے کہا کہ یہ حکومت جو خود کو جمہوری کہتی ہے اسی حکومت کے دور میں ایک منتخب وزیراعلیٰ نے میرے گھر میں فورسز کے اہلکاروں کو گھسایا چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا اور بلوچستان کی قبائلی روایات کی پامالی کی ابھی بھی میں ایک قیدی ہوں مگر اب مجھے جو ریلیف ملا ہے وہ نواب ثناء اللہ زہری کے دور میں ملا ہے میں ڈاکٹر مالک بلوچ اور پرویز مشرف کے دور کو ایک ہی دور سمجھتاہوں جس پر ڈاکٹر شمع اسحاق نے کھڑے ہو کر احتجاج کیا تاہم سردار کھیتران نے انہیں بولنے کا موقع نہ دیتے ہوئے کہا کہ فلور میرے پاس ہے آپ نہیں بول سکتیں اس کے بعد بھی شمع اسحاق نہ بیٹھیں تو سردار کھیتران نے کہا کہ آپ خاتون ہیں خاتون کو جواب دینا میں اپنی توہین سمجھتا ہوں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور کو آمریت سے مماثلت دی گئی جو درست نہیں انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت جیسی بھی ہے جس طرح بھی ہے یہ آمریت سے ہزار گنا بہتر ہے اختیارات کے استعمال میں اداروں کو دیکھنا چاہئے انہوں نے کہا کہ جو لوگ جمہوریت کے خلاف سازشیں کرتے تھے شکر ہے کہ اس ایوان میں ان کا وجود بھی نہیں ہے انہوں نے اپنی پارٹی کی طرف سے میر خالد لانگو سے فیصلہ واپس لینے کی درخواست کی عوامی نیشنل پارٹی نے بھی میر خالد لانگو سے فیصلہ واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی اسی طرح کے حالات سے گزرتے رہے ہیں مگر ہم نے کبھی بھی ہار نہیں مانی میں افغان ریفیوجیز مین انجینئر تھا وہاں مجھ پر جو کیس بنا وہ میں14سالوں تک لڑتا رہتا 2010ء میں میں بری ہوگیا میرخالد لانگو کو استعفیٰ نہیں دینا چاہئے اگرچہ محکمہ خزانہ کا یہ کیس پورے بلوچستان کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے انہوں نے کہا اسمبلی فلور سے استعفیٰ آپ کا حق نہیں کہ آپ دیں اس کے لئے کم از کم آپ کو اپنے علاقے کے لوگوں سے مشورہ تو کرنا چاہئے ۔ میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ ہم پر الزامات لگتے رہتے ہیں 1990ء میں جب میں رکن اسمبلی تھا مجھ پر الزامات لگے میں نے ہار نہیں مانی پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھیں خان عبدالولی خان ‘ عبدالصمدخان ،سردار عطاء اللہ مینگل ،نواب بگٹی سب جیلوں میں گئے سابق صدر آصف علی زرداری پر الزامات لگے اور وہ 11سال جیل میں رہے ایک سابق وزیراعظم جو سپیکر بھی رہے وہ 5سال تک جیلوں میں رہے خود میاں نواز شریف دو سال جیل میں رہے انہوں نے کہا کہ آپ عدالتوں کا سامنا کریں بعدازاں میرخالد لانگو نے ایوان میں کھڑے ہو کر استعفیٰ سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری جو قائد ایوان ہونے کے ساتھ ساتھ سرسرداران جھالاوان بھی ہیں ان کا حکم میرے سر آنکھوں پر میں پورے ایوان کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے لئے اپنے خیالات کااظہار کیا ہمارے صوبے کی قبائلی روایات بھی ہیں وزیراعلیٰ اور ارکان اسمبلی کے کہنے پر میں اپنا استعفیٰ واپس لینے کا اعلان کرتا ہوں ۔ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران انجینئر زمرک خان اور شاہدہ رؤف کے محکمہ بلدیات اورا یس اینڈ جی اے ڈی سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے گئے جس کے بعد آغا سید لیاقت نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا ۔