|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2016

فرانسیسی کورٹ نے ساحلی قبصے ویلینیو لوبٹ میں برقینی پر عائد متنازع پابندی کو معطل کر دیا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ یہ ’پابندی سنجیدہ اور واضح طور پر آنے جانے کے بنیادی حقوق کی آزادی کی خلاف ورزی ہے، عقائد اور افراد کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔‘ یہ فیصلہ ان 30 سے زائد علاقوں کے لیے بھی ایک مثال ہو سکتا ہے جہاں برقینی پر پابندی عائد ہے۔ عدالت برقینی پر پابندی کی قانونی حیثیت کے حوالے سے اپنا حتمی فیصلہ بعد میں سنائے گی۔ عدالت کے باہر وکیل کا کہنا تھا کہ برقینی پہننے پر جن لوگوں کو جرمانہ ادا کرنا پڑا وہ اپنی رقم کی واپسی کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں۔ انسانی حقوق اور اینٹی اسلامو فوبیا ایسوسی ایشن نے عدالت کی توجہ برقینی پر عائد پابندی کی جانب مبذول کروائی تھی۔ برقینی پر نام نہاد پابندی نے فرانس سمیت دنیا بھر میں اس پر بحث کا آغاز کیا تھا۔ رائے شماری کے مطابق فرانسیسیوں کی زیادہ تر تعداد برقینی پر پابندی کی حامی ہے۔ خیال رہے کہ فرانس میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملک کے 26 علاقوں میں ساحلِ سمندر پر برقینی پر عائد پابندی ختم کرنے کے لیے فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کیا تھا۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انھیں غیر منصفانہ انداز میں ہدف بنایا جا رہا ہے
فرانس کے 26 قصبوں کے میئروں نے امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے اور سیکولرزم کے بنیادی اصول کے تحت ساحل پر برقینی پہننے پر پابندی لگائی تھی۔ برقینی پر پابندی کے خاتمے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں نے نیس کی عدالت سے رجوع کیا لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی جس کے بعد انھوں نے یہ درخواست فرانس کی سب سے بڑی عدالت کونسل آف سٹیٹ میں جمع کروائی تھی۔ ادھر مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انھیں غیر منصفانہ انداز میں ہدف بنایا جا رہا ہے۔ برقینی پر پابندی کے اس فیصلے سے فرانس کی حکومت میں شامل سینیئر ارکان کی رائے بھی تقسیم ہو گئی تھی۔ فرانس کے وزیراعظم نے ایک بحث کے دوران کہا تھا کہ برقینی پوش خواتین جمہوریہ فرانس کی مزاحمت کو آزما رہی ہیں جبکہ ملک کے وزیر تعلیم نے اس پابندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ساحل پر خواتین کے کپڑوں کا اسلامی جہادی تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ خیال رہے کہ فرانس میں یہ تنازع اُس وقت سامنے آیا جب نیس کے ساحل پر پولیس برقینی پر عائد پابندی کو یقینی بناتے ہوئے ایک خاتون سے برقینی اتروا رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر اس تصویر کے وائرل ہونے کے بعد کئی افراد نے بہت غصے کا اظہار کیا۔