|

وقتِ اشاعت :   September 5 – 2016

قلات: بلوچ رابطہ اتفاق تحریک برات کے قائد پرنس محی الدین جان بلوچ نے کہاہے کہ دو عالمی قوتوں کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک بھی بلوچستان میں یہ دلچسپی لے رہے ہیں جو لوگ اسمبلیوں میں آئے ہیں انہوں نے بلوچستان کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلوچستان کو تین سال کے لیئے خصوصی علاقہ قرار دیکر ڈیڑھ دوسال کے لیئے ایمر جنسی سیٹ اپ بنایا جائے ملک کے لیئے کوئی پالیسی نہیں ہے ڈنڈے کے زور پر نہ بلوچستان اور نہی ملک کو چلایا جاسکتا ہیں اسوقت ملک کے تین صوبوں میں شورش ہیں جبکہ تین ممالک کے ساتھ بارڈر پر مسئلہ موجود ہیں اس ملک میں نہ تو فوجی نہ اسلامی اور نہی جمہوری حکومت ہے اب مزاکرات کس سے کی جائے لیڈر تو موجود ہیں لیڈرشپ نہیں بلوچستان میں مارشل لاء کے دور میں بلوچوں کو عزت دی گئی اور بلوچستان کو ترقی ملی جنوری 1976میں میرے والد کی سربراہی میں بحثیت گورنر فوج اور بلوچوں کے درمیان امن قائم کیا گیا اور 23 سال تک کسی نے آزاد بلوچستان کا نعرہ نہیں لگایا اور نہی کسی نے صوبائی خود مختاری کی بات کی 1999 میں جنرل مشرف نے بلوچستان میں ظلم و بربریت شروع کی اس کی زمہ دار اسلام آباد ہے اگر حکمران بلوچوں سے بات نہیں کرتے تو باہر سے لو گ آفر دینگے ان خیالات کااظہار انہوں نے شاہی دربار قلات میں اپنے رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ ہم تمام امید کر تے ہیں کہ حالات ٹھیک ہوں مگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو حالات روز بروز خراب ہو تے جارہے ہیں میڈیا میں سرکاری لوگ کہتے ہیں خیر خیریت ہیں جب حالات خراب ہو جائے تو دعوے کرتے ہیں کہ ہم یہ کریں گے ان کو پکڑیں گے بلوچستان ایک انتہائی اہم بین الاقوامی حیثیت کا حامل خطہ ہیں اس میں باہر کے لوگ آئے ہیں اور وہ اپنے آپ کو دیکھ ا رہے ہیں اور دوعالمی طاقتیں اور مغربی ممالک بھی دلچسپی لے رہے ہیں بلوچستان میں فورسز بھی استعمال ہو ئے ہیں ملک کو مختلف طریقے سے چلایا جارہا ہے حکمران نہیں سمجھتے کہ موجودہ حالات میں بلوچستان کی کیا اہمیت ہے بلوچستان کے مسائل کو حکمران سمجھنے کی کوشش کریں اگر حکمرانوں نے مسائل کو نہ سمجھا تو جس طرح ملک کا ایک حصہ الگ ہو ا تویہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گابلوچستان کے عوام کو ستر سالوں میں کیا ملا ہے جو لوگ اسمبلیوں اور اقتدار میں آتے ہیں وہ لوٹ مار کے بعد بیرون ملک چلے جاتے ہیں یہ بلوچ قو م کے ساتھ مزاق ہے جسے بلوچ ہر گز قبول نہیں کریں گے انہوں نے کہا کہ موجودہ حاکم جو اسمبلی اور مرکز میں موجود ہیں وہ امن نہیں چاہتے انہوں نے کہا کہ میں نے تین سال قبل یہ بات کہا اور مجھے پتہ ہے کہ آئینی طریقے سے اقتدار دینا ناممکن ہیں بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیئے مرکز بلو چستان کو تین سال کے لیئے خصوصی علاقہ قرار دیکر ڈیڑھ دوسال کے لیئے ایمر جنسی سیٹ اپ بنایا جائے اور 1999 کے بعد بلوچوں کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہیں اسکا اعتراف کریں اگر آپ نے بات نہیں کی تو باہر کے لوگ آفر دیں گے میں نہیں کہتا کہ مجھے اقتدار دیا جائے میں وفاقی وزیر رہاہوں اور اقوام متحدہ میں بھی کام کیا ہیں مجھے تجربہ ہے انہوں نے کہا کہ جنوری 1976 میں میرے والد کی سربراہی میں بحیثیت گورنر فوج اور بلوچوں کے ساتھ یہا ں امن قائم کیا گیا 23 سال تک کسی نے آزاد بلوچستان کا نعرہ نہیں لگایا اور نہی کسی نے صوبائی خود مختاری کی بات کی نہی ایک بم پٹا اور نہی کوئی آدمی اغوا ہوا 23سال پر امن گزرے حتیٰ کہ 1999 میں جنرل مشرف نے بلوچستان میں قتل و غارت شروع کیا ایک ظلم ہواجو آج تک جاری ہے اس کی زمہ دار اسلام آباد ہے ہم نہیں حکمران ہوش کے ناخن لے بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ امیر خطہ جس میں قدرتی وسائل موجود ہیں اس کے باوجود بجلی پانی اور روزگار کے مواقع میسر نہیں اسوقت ملک کے تین صوبوں میں شورش ہیں جبکہ تین ممالک کے ساتھ بارڈر پر مسئلہ موجود ہیں لیڈر تو موجود ہیں لیڈرشپ نہیں انہوں نے کہا کہ ملک میں نیشنل ایکشن پلان اور پالیسی نہیں ہے یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے مگر اسلام اور رسولﷺ کانام لینے سے لوگ ڈرتے ہیں افغانستان میں شورش کے باوجود پالیسی موجود ہیں اس ملک کا معلوم نہیں کہ ملک میں اسلامی جمہوری یافوجی یاسول حکومت ہے اسکا پتہ نہیں جب تک آپ کا کوئی واضح پالیسی نہیں تویہ ملک کیسے چلائی جاسکتی ہے یہ کونسانظام چلارہے ہیں ادھر کوئی نہیں جانتا کہ کون لیڈر ہے اور کس سے مزاکرات کریں مارشل لاء کے دور میں بلوچوں کو عزت دی گئی اور ترقی ملی اور بلوچوں نے بھی23 سال تک اپنی زبان کا پاس رکھا مارشل لا ء دور میں صوبہ پرامن رہا اور پہاڑوں میں موجود لوگوں کو بھی اسمبلیوں میں لایاگیا مگر 1999 سے بلوچستان میں خون ریزی شروع ہوئی اور ایسے لوگوں کو اقتدار اور اسمبلیوں میں لائے گئے جنہوں نے لوٹ مارکی اور قومی خزانہ لوٹنے کے بعد بیرون ملک چلے گئے انہوں نے کہا کہ سی پیک کے حوالے سے اسلام آباد کی اقتصادی ماہرین بتائے کہ اس میں بلوچوں کو کیا فائدہ ملے گا ورلڈ بنک کا جائزہ ہے کہ ریکوڈیک کے پانچ سو بیلین ڈالر وسائل ہیں جس میں سونا تانبا اور دیگر وسائل یہ چھیا لیس ارب ڈالر کچھ نہیں چائنا ہمیں چھیالیس ارب ڈالر دیکر ہماری پانچ سو بیلین ڈالر لے جائے گا اور یہ کہتے ہیں کہ ریلوے لائن اور سڑکیں بنیں گے مجھے مشکل لگتا ہیکہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے اور میں داد دیتا ہوں سابق وزیر آعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو کہ انہوں نے ریکارڈ پر بحیثیت چیف منسٹر تسلیم کیا کہ سیندک کی دولت کا آدھا حصہ ایک وفاقی ادارہ اور آدھا حصہ چین لے جارہا ہیں اور ہم سے چنے کا باؤ بھی نہیں پوچھا گیا یہ ظلم نہیں توکیا ہے پرنس محی الدین بلوچ نے کہا کہ بلوچوں کو دباؤمیں ڈال کر اس کے وسائل کو لوٹاجائیں جسے بلوچ ہرگز قبول نہیں کریں گے ان سولہ سالوں میں ڈنڈا کا زور چلایااگر انہوں نے ہوش کے ناخن نہ لیئے تو ایک بڑا ڈنڈا والا ڈنڈا ہاتھ میں لیکر آئیگا موجودہ حالات میں بلوچ مطمئن نہیں جو نقصانات ہوئے ہیں اسکا ازالہ کریں اگر انہوں نے آفر نہیں دیا تو باہر کے لوگ آفر دینگے ہتھیار اور دیگر چیزیں بھجیں گے جس سے حالات مزید گھمبیر ہوجائیں گے اور انہیں سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔