واشنگٹن: امریکا نے پاکستان کو سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی مدد جاری رکھنے کا یقین دلاتے ہوئے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے بلوچستان کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے معاملے سے خود کو واضح طور پر الگ کرنے کا اعلان کردیا۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ‘امریکی حکومت، پاکستان کے اتحاد اور سرحدوں کی سالمیت کا احترام کرتی ہے اور ہم بلوچستان کی آزادی کی حمایت نہیں کریں گے’۔
بلوچستان کا معاملہ عید الاضحیٰ کی چھٹیوں کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران اُس وقت زیر بحث آیا جب ہندوستانی صحافی نے ترجمان سے استفسار کیا کہ وہ بلوچستان میں ‘انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور آزادی کی لڑائی’ کے حوالے سے امریکی پالیسی کی وضاحت کریں۔
صحافی نے امریکی اہلکار کو یاددہانی کرائی کہ ہندوستانی وزیراعظم بھی بلوچستان کے مسئلے پر دلچسپی لے رہے ہیں اور انھوں نے مختلف بین الاقوامی فورم پر اس معاملے کو اٹھایا ہے۔
کربی کے جواب سے غیر مطمئن صحافی نے اپنے سوال کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں کئی شخصیات اور گروہ ‘بلوچستان کی آزادی’ کے لیے کام کررہے ہیں، کیا آپ ان کی حمایت کرتے ہیں اور کیا آپ انھیں (جو اس معاملے کو ہوا دے رہے ہیں) امریکی سرزمیں پر برداشت کریں گے؟
اسٹیٹ دپارٹمنٹ کے ترجمان نے کہا کہ ‘امریکی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہم پاکستان کی سرحدوں کی سالمیت کی حمایت کرتے ہیں اور بلوچستان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتے’۔
صحافی نے دوبارہ پوچھا کہ ‘کیا آپ ہندوستانی وزیراعظم کے اس خاص موضوع پر دیئے گئے بیان پر ردعمل ظاہر کریں گے؟ جس پر انھوں نے کہا کہ ہم نے اپنا ردعمل اسی وقت دے دیا تھا۔
بلوچستان کے حوالے سے امریکا کے واضح موقف نے ہندوستان کے اُن منصوبوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے، جن کا مقصد اگلے ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی جانب سے جموں و کشمیر کے مسئلے کو اٹھانے سے باز رکھنا تھا۔
ہندوستان کے دباؤ کے باوجود توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان جنرل اسمبلی میں دیگر اجلاس اور اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرے گا۔
اقوام متحدہ کے سیشن میں شرکت کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی نیویارک آمد متوقع ہے اور 20 ستمبر کو وہ اپنی تقریر میں جن مسائل کو اجاگر کریں گے ان میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔
دوسری جانب ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اس سال جنرل اسبملی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے جبکہ اجلاس میں وزیرخارجہ سشما سوراج ہندوستانی کی نمائندگی کریں گی۔
وزیر خارجہ کی حیثیت سے وہ نواز شریف کے خطاب کے ایک دن بعد جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کریں گی جس سے ہندوستان کو پاکستانی موقف کے جوابات دینے کے لیے کافی وقت میسر ہوگا۔
ہندوستانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ‘اگر نواز شریف نے کشمیر کے حوالے سے کوئی بات کی تو جنرل اسمبلی میں بلوچستان کے مسئلے کو بھی اٹھایا جائے گا’۔
ہندوستان کے قومی دن کی تقریب کے دوران تقریری میں مودی نے بلوچستان کے حالات کو چھیڑا تھا اور ہندوستانی سفارتکاروں اور میڈیا کو دنیا کے دارالحکومتوں میں اس کو اجاگر کرنے پر زور دیا تھا۔
پاکستان نے اس تقریرپر غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس کو بین الاقوامی آداب کے منافی اور ملک کی سالمیت میں مداخلت قرار دیا تھا۔
پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ مودی بلوچستان کو چھیڑتے ہوئے کشمیر میں ہندوستانی سیکیورٹ فورسز کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ بلوچستان کشمیر کی طرح متنازعہ علاقہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا ہوا مسئلہ ہے اور کشمیریوں کی حق خوارادیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد موجود ہے۔
لیکن گزشتہ ماہ بنگلہ دیش اور افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے پاکستان کے خلاف مہم پر مودی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہندوستان کے موقف کی حمایت کی تھی۔
واشنگٹن میں بھی حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور حکام نے ہندوستان اور پاکستان کو جنوبی ایشیا میں تناؤ کو کم کرنے کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زوردیا۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نائب ترجمان مارک ٹونرکا کہنا تھاکہ ‘ہم خطے کی سلامتی اور مزید استحکام کے لیے ہندوستان اور پاکستان جو حصہ ڈال سکتے ہیں اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں جس میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کسی بھی سطح پر ملاقاتیں بھی شامل ہیں’۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا تھا کہ امریکا دونوں ملکوں کےدرمیان براہ راست مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری ہمیشہ سے یہ دیرینہ پوزیشن رہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خوش گوار تعلقات اور عملی تعاون ان کے مفاد میں ہے’