|

وقتِ اشاعت :   September 29 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ حیرانگی ہوئی ہے کہ صوبائی دارالحکومت کے پانچ بڑے ہسپتالوں میں آئی سی یو کے اہم شعبے یا توہے نہیں یا پھر غیر فعال ہیں اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے آئی سی یو میں لائے جانے والے مریض کی زندگی اور موت لمحوں کے درمیان ہوتی ہے اورایک فعال آئی سی یو ایسے مریضوں کے لیے زندگی کی نوید بن جاتا ہے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ کوئٹہ کے دو سرکاری ہسپتالوں کی آئی سی یو کو مکمل طور پر فعال بنائیں اور بعد میں صوبائی دارالحکومت کے باقی ماندہ ہسپتالوں میں بھی آئی سی یو کا قیام عمل میں لائیے اور آہستہ آہستہ یہ سہولت تمام صوبے تک پھیلائی جائے یہ حکم بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس ظہیر الدین کاکڑ پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے آئینی درخواست نمبر 123/2016میں دیا عدالت کے سامنے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے سیکرٹری صحت کی رپورٹ جمع کرائی کہ 8اگست کے دھماکے کے بعد شعبہ حادثات کو بری طرح نقصان پہنچی ہے جس کی اب مرمت کی گئی ہے اور یہ مکمل طور پر فعال ہے اور نئی تعمیرشدہ ٹراما سینٹر کو بھی کسی حد تک فعال بنایا جا چکا ہے اور ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی پوسٹنگ بھی ٹراما سینٹر میں کی گئی ہے جبکہ آلات کی خریداری کے لیے اس مہینے کو ٹینڈر کھولا جائے گا عدالت عالیہ نے سیکرٹری صحت کو حکم دیا کہ وہ اپنی کوششیں جاری رکھیں ٹراما سینٹر کو مکمل طور پر بنائے اور حکومت کو بھی صوبائی دارالحکومت کے ہسپتالوں بی ایم سی ، شیخ زاہد ، شہید بے نظیر بھٹو اور مفتی محمود ہسپتال کے شعبہ حادثات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں تاکہ عوام کو سہولیات صحت میسر ہو اور سول ہسپتال کو بوجھ بھی کم کیا جاسکے ۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت بلوچستان کانگو وائرس سے متاثرہ صوبہ ہے اس لئے جنگی بنیادوں پراس مرض کے روک تھام پر کام کرنے کی ضرورت ہے عدالت کے استفسار پر سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ کانگو وائرس کے تشخیص کے لئے ایک لیبارٹری کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک خطرناک اور جلدی پھیلنے والا وائرس ہے اسلئے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اس سلسلے میں این آئی ایچ اسلام آباد کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس مرض کی تشخیص کے لیے لیبارٹری کا قیام عمل میں لائیں اس سلسلے میں انہوں نے محکمہ صحت کے ذمہ دار کے طور پر خط بھی لکھ دیا ہے جس کا اب تک کوئی جواب این آئی ایچ نہیں دیا ہے مذکورہ لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے تشخیص دوسرے صوبوں سے کروایا جارہا ہے جس کا نتیجہ آنے میں کئی دن لگتے ہیں۔ عدالت نے سیکرٹری صحت کو حکم دیا کہ وہ کوئٹہ میں اس لیبارٹری کے قیام کے لیے جنگی بنیادوں پر اٹھائیں تاکہ تشخیص کا عمل آسان بنایا جاسکے اور این آئی ایچ اسلام آباد کے ذمہ داروں کو حکم دیا جاتا ہے کہ بلوچستان سے موصول ہونے والے تمام نمونوں کے ٹیسٹ جلد از جلد انجام دے سیکرٹری صحت بلوچستان اس سلسلے میں سیکرٹری وزارت صحت اسلام آباد کے ساتھ رابطے میں رہے چونکہ جنگلی حیات اس وائرس کی خاص وجہ ہے لہذا سیکرٹری جنگلی حیات کو حکم دی جاتی ہے کہ وہ جانوروں کی ویکسینیشن کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں ، سیکرٹری جنگلات زیادہ متاثرہونے والے اضلاع پر خصوصی توجہ دے اور ایسا نظام بنائیں کہ وہ اس کیڑے مکوڑے اور جراثیم جس سے کانگو وائر س پھیلنے کا خطرہ کو تلف کریں جہاں جہاں یہ جانور موجود ہیں وہاں پر حفاظتی ادوایات دیئے جائیں سیکرٹری صحت اور سیکرٹری جنگلی حیات اس مسئلے پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر آگاہی مہم بھی چلائیں اور خصوصا سیکرٹری صحت ڈاکٹروں اور دیگر اس اسٹاف کا جو کہ کانگو وائرس کے مریضوں کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائیں عدالت نے تما م ہسپتالوں میں آئی سی یوکے نہ ہونے پر عدالت عالیہ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکرٹری بلوچستان ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور سیکرٹری صحت کو حکم دیا کہ وہ موجودہ دو سرکاری ہسپتالوں میں آئی سی یو ز کو مکمل طور پر فعال بنائیں ۔عدالت عالیہ نے فیصلے کی کاپیاں سیکرٹری وزارت صحت حکومت پاکستان ، چیف سیکرٹری بلوچستان ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان اور سیکرٹری صحت بلوچستان کو ارسال کرنے کا حکم دیاْ ۔