|

وقتِ اشاعت :   October 3 – 2016

مزار شریف: افغانستان کے ترکمانستان سے منسلک شمالی صوبے جاوزجان میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک اور 35 سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ طالبان نے قندوز پر ایک مرتبہ پھر حملہ کردیا، جس کے بعد عسکریت پسندوں اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے صوبائی گورنر کے ترجمان رضا غفوری کے حوالے سے بتایا ہے کہ دھماکا خیز مواد ایک موٹر سائیکل میں نصب تھا جسے ضلع دارزاب کے ایک شاپنگ مال کے قریب زور دار دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ جس وقت دھماکا ہوا یہاں شہریوں کی بڑی تعداد خریداری کیلئے موجود تھی۔ انھوں نے کہا کہ ‘افغانستان کی عوام کے دشمنوں نے نہتے افغانیوں کو نشانہ بنایا ہے، جو ضروریات زندگی کی خریداری میں مصروف تھے’۔ مذکورہ دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی بھی گروپ یا تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ہے۔ افغان طالبان نے قندوز پر دوبارہ حملہ کردیا، حکام دوسری جانب خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق قندوز شہر پر حملہ جنوبی اور مشرقی جانب سے پیر کو علی الصبح کیا گیا اور طالبان عسکریت پسند حکومتی فورسز سے لڑائی میں مصروف ہیں۔ قندوز کے صوبائی گورنر کے ترجمان محمود دانش نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے مختلف اطراف سے شہر پر حملہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ طالبان نے حملے کے لیے رہائشی علاقوں کا انتخاب کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز جوابی کارروائی کے دوران نہایت احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہیں تاکہ شہری آبادی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ محمود دانش نے بتایا کہ افغان ایئر فورس بھی لڑائی میں زمینی افواج کی مدد کر رہی ہیں، ساتھ ہی انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ طالبان شہر پر قبضہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ رپورٹس کے مطابق افغان فورسز کے 2 ہیلی کاپٹرز بھی شہر پر پرواز کر رہے ہیں، جبکہ دکانیں بند اور سڑکیں بالکل سنسان ہیں۔ قندوز میں پولیس کورآڈینیشن آفس کے سربراہ محمد اللہ باہج نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز افغان جنگجوؤں سے شہر کے نواح میں لڑائی میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے شہر میں متعدد چیک پوسٹس پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس سے قبل 28 ستمبر 2015 کو بھی افغان طالبان نے قندوز پر حملہ کرکے 2 روز تک اس پر قبضہ کیے رکھا تھا، تاہم بعد میں افغان سیکیورٹی فورسز نے شہر کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس دوران 289 افراد اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ قندوز پر حالیہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغان صدر اشرف غنی رواں ہفتے برسلز میں ہونے والی میجر ڈونر کانفرنس میں عالمی طاقتوں کے سربراہان سے ملاقات کرنے جارہے ہیں، جس کے دوران جنگ کے شکار اس ملک کے لیے عالمی برادری کی جانب سے 2020 تک مالی امداد کے حوالے سے غور کیا جائے گا۔ دسمبر 2014 میں امریکا کی اتحادی نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد سے افغانستان میں طالبان کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور دیگر اہم مقامات پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں 1996 سے 2001 کے دوران افغان طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت امارت اسلامیہ قائم کی تھی اور وہ ایک مرتبہ پھر ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جنگ میں مصروف ہیں۔