کوئٹہ کے سریاب روڈ پر قائم پولیس کے ٹریننگ کالج پر دہشت گردوں کے حملے میں 2 پولیس اہلکار جاں بحق اور 51 سیکیورٹی اہلکار زخمی جبکہ فورسز کے آپریشن میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے.
سنیئر سپریٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) آپریشن محمد اقبال نے بات کرتے ہوئے دو پولیس اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ ایک پولیس اہلکار ٹریننگ کالج میں جبکہ ایک پولیس اہلکار دوران علاج جاں بحق ہوگیا۔
پولیس کے مطابق ٹریننگ کالج کے ہاسٹل میں 600 کیڈٹس زیر تعلیم ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ 4 سے زائد حملہ آور ٹریننگ کالج کے پیچھلے راستے سے عمارت میں داخل ہوئے تھے جن کے خلاف فوج، ایف سی اور پولیس کمانڈوز کی جانب سے آپریشن کیا گیا اور 250 سے زائد کیڈٹس کو بازیاب کرا لیا گیا.
وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے 200 زیر تربیت اہلکاروں کو بازیاب کرانے کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ آپریشن میں اب تک دو حملہ آور بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے تبادلے میں 51 اہلکار زخمی ہوئے ہیں جنھیں علاج کے لیے سول ہسپتال اور بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کردیا گیا ہے، زخمیوں میں 3 کی حالت تشویش ناک بتائی گئی۔
مزید کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے ہسپتال کے باہر سیکیورٹی کے غیرمعمولی اقدامات کئے گئے ہیں بالخصوص 8 اگست کو دہشت گردوں کی جانب سے سول ہسپتال کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔
نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق ٹریننگ کالج کے اندر سے شدید فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں اب بند ہوگئی ہیں، جبکہ ہاسٹل میں یرغمال بنائے گئے کیڈٹس کو کمانڈوز نے آپریشن کے دوران بازیاب کرا لیا۔
اب تک کی اطلاعات
4 سے زائد دہشت گرد رات ساڑھے 11 بجے پولیس ٹریننگ کالج میں داخل ہوئے
فائرنگ اور دھماکوں سے کم سے کم 51 اہلکار زخمی ہوئے
آپریشن جاری ہے، فورسز نے ٹریننگ کالج کو گھیرے میں لے رکھا ہے
پولیس کے علاوہ فوج اور ایف سی اہلکار بھی موقع پر موجود ہیں
ایس ایس جی آپریشن کے آغاز کے بعد 2 زور دار دھماکے سنے گئے
250 زیر تربیت اہلکاروں کو بازیاب کرالیا گیا
آپریشن میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے
واقعے کی اطلاع ملتے ہی ایف سی، فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر ٹریننگ کالج اور اس کے اطراف کے علاقوں کو گھیرے میں لے لیا۔
ادھر صوبائی حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد کوئٹہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے عملے کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا ہے۔
ایک عینی شاہد نے میڈیا کو بتایا کہ 3 سے 4 دہشت گرد ٹریننگ سینٹر میں داخل ہوئے تھے اور فائرنگ شروع کردی جس کے بعد افراتفری پھیل گئی اور متعدد افراد ہاسٹل کی جانب چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس وقت حملہ آور ہاسٹل میں داخل ہوئے اس وقت 10 سے 12 افراد موجود تھے، ان کاکہنا تھا کہ حملہ آور ساڑھے 9 بجے ٹریننگ سینٹر میں داخل ہوئے جنھوں نے نے نقاب پہن رکھے تھے۔
ادھر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج اور ایف سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا۔
اس دوران وزیراعلیٰ بلوچستان کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں صوبائی انتظامیہ کے علاوہ فوجی حکام اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اعلیٰ اہلکار بھی موجود تھے جہاں آپریشن کے حوالے سے حکمت عملی اپنائی گئی۔
اس سے قبل ایس ایس پی آپریشن محمد اقبال نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ ابھی بند ہوئی ہے تاہم سرچ آپریشن جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گرد سینٹر کے عقب سے داخل ہوئے تھے، 4 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں لیکن اب حالات خطرے سے باہر ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔
انھوں نے زیر تربیت پولیس اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایات بھی جاری کیں۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور گیارہ بجے پولیس ٹریننگ کالج میں داخل ہوئے تھے، ٹریننگ سینٹر شہر سے باہر دیہی علاقہ قائم ہے.
انھوں نے بتایا کہ تین چار روز قبل دہشت گردی کے حوالے سے انٹیلیجنس اداروں نے اطلاعات دی تھیں، جس میں بتایا گیا کہ تین چار دہشت کوئٹہ میں داخل ہوئے ہیں۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ آئی جی پولیس موقع پر موجود ہیں جبکہ فوج کی ضرورت پڑی تو وہ بھی آپریشن میں حصہ لے گی۔
دوسری جانب وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔
انھوں نے فائرنگ سے 4 اہلکاروں کے زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ سریاب روڈ کا علاقہ سیکیورٹی حوالے سے انتہائی حساس علاقہ قرار دیا جاتا ہے جہاں ماضی میں متعدد مرتبہ دہشت گردوں نے سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے جبکہ حکام کا کہنا تھا کہ مذکورہ پولیس ٹریننگ کالج کو پہلے بھی نشانہ بنایا چکا ہے۔
کسی بھی تنظیم یا گروپ نے پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
تاہم ماضی میں صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہوا ہے۔
13 ستمبر 2016 کو کوئٹہ کے علاقے سریاب روڑ پر پولیس ٹریننگ کالج کے قریب دھماکا ہوا تھا جس میں 2 پولیس اہلکار ہلاک اور 8 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین بھی شامل تھا جبکہ اکثریت وکلا کی تھی جو بلوچستان بارکونسل کے صدر انور بلال کاسی کے قتل کی خبر سن کرہسپتال پہنچے تھے۔
28 جون 2016 کو کوئٹہ میں فائرنگ کے 2 مختلف واقعات میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
اس کے علاوہ پولیس ٹریننگ کالج ماضی میں 2008 اور 2006 میں بھی دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں آیا تھا جہاں کالج کے میدان میں راکٹ فائر کئے گئے تھے۔
نوٹ: یہ ابتدائی خبر ہے جس میں تفصیلات شامل کی جا رہی ہیں۔ بعض اوقات میڈیا کو ملنے والی ابتدائی معلومات درست نہیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ ہم متعلقہ اداروں، حکام اور اپنے رپورٹرز سے بات کرکے باوثوق معلومات آپ تک پہنچائیں۔