کوئٹہ :اگست کو کوئٹہ میں پیش آنیوالے واقعات کے متعلق تشکیل دئیے گئے جوڈیشل کمیشن کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیکٹاکی کارکردگی کو غیر اطمینان بخش قراردیتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ لوگوں کو بم دھماکوں میں اڑانے اور ٹارگٹ کرنیوالے دہشت گرد ندناتے پھررہے ہیں مگر میڈیا سمیت کوئی بھی کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں ،ریاست یا کسی شہری کیخلاف بندوق اٹھانیو الے مجرم ہیں ،اسلام کا بنیادی پیغام اور مقصد امن کا نفاذ ہے ،امن کے قیام اور سچ تک پہنچنے کیلئے سب کو دلجمعی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔گزشتہ روز جوڈیشل کمیشن کے سامنے نیکٹا نیشنل کوارڈینیٹر احسان غنی پیش ہوئے اور کمیشن کی جانب سے پوچھے گئے مختلف سوالوں کے جوابات دئیے اورکہاکہ نیکٹا کے پاس لیگل ریفارمز کے علاوہ دیگر اختیارات نہیں ،دہشت گردی اور انتہاپسندی کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ادارہ کام کررہاہے اس سلسلے میں اتحاد تنظیم المدارس پاکستان کیساتھ بھی رابطے کئے گئے ہیں جس کا وفاق المدارس سمیت دیگر وفاق بھی حصہ ہے اس کے دفاتر کراچی میں ہے ،انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں 4نومبر کو تمام مکاتب فکر کے علماء کااجلاس وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں منعقد ہوگا،انہوں نے کہ 98ملین موبائل سمز بلاک کردئیے گئے ہیں جبکہ ٹارگٹ کلنگ میں بھی 99فیصد تک کمی ہوئی جس پر جوڈیشل کمیشن کے جج نے ریمارکس دئیے کہ کمیشن مطمئن نہیں جرائم کے بارے میں نیکٹا کے پاس مصدقہ اعداد وشمار تک نہیں ہے ،جس پر نیکٹا کی جانب سے بتایاگیاکہ صوبوں کو تحریری طور پر ڈیٹا کی فراہمی کیلئے لکھاگیاہے لیکن تاحال انہیں ڈیٹا موصول نہیں ہوا،جور یکارڈ بھجوایاگیاتھا اس لئے از سر و دیٹا طلب کیاگیاانہوں نے کمیشن کے پوچھے گئے ایک سوال پر بتایاکہ نیشنل ایکشن پرعملدرآمد نیکٹا کا نہیں بلکہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے 8اگست کو کوئٹہ میں پیش آنیوالی واقعات کی رپورٹ وزیراعظم کو بھجوادی گئی ہے ان سے جب کمیشن کے جج نے استفسار کیاکہ وفاقی وزیر داخلہ کی اہلسنت والجماعت کے رہنماؤں سے ملاقات کاانہیں علم ہے تو انہوں نے جواب نفی میں دیا اور پھر بولے کہ انہیں اس سلسلے میں میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا میڈیا بیانات کے مطابق اہلسنت والجماعت کے رہنماؤں نے بلاک شناختی کارڈز کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کی ہے ،سماعت کے دوران نیکٹا کی جانب سے 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان پیش کیاگیاتو کمیشن کے جج نے استفسار کیاکہ 20نکات میں سے پہلے چار نکات میں کتنے پرعملدرآمد ہواہے تو نیکٹا کی جانب سے بتایاگیاکہ پہلی دو نکات پرعملدرآمد ہواہیں لیکن 3اور4نکات پر عملدرآمد نہیں ہوا جج نے استفسار کیاکہ فورتھ شیڈول کے مطابق کتنے افراد انڈر آبزرویشن ہے تو نیکٹا کی جانب سے جواب دیاگیاکہ 8307انڈرآبزرویشن ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کراچی آپریشن کے متعلق پوچھا تو نیکٹا کے نیشنل کوارڈ ینیٹر نے بتایاکہ کراچی آپریشن 2جون 2014کو شروع ہو ا اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیاکہ اسلام کابنیادی مقصد اورپیغام امن کانفاذ ہے آرٹیکل 19کی ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی عین خلاف ہے اسلام کو ہائی جیک کیاجارہاہے لوگوں کو اڑایااور ٹارگٹ کیاجارہاہے کیا یہ اسلام ہے ،دہشت گرد دندناتے پھررہے ہیں لیکن میڈیا سمیت سب خوفزدہ ہے لیکن ہرکوئی کھل کر بات کرنے کی بجائے زیر لب بات کرتاہے نیشنل ایکشن پلان پر سب متفق ہے تو اس پرعملدرآمد میں رکاوٹ کیاہے جو شخص ریاست اور کسی شہری کیخلاف بندوق اٹھاتاہے وہ مجرم ہے بدقسمتی سے بھی میڈیا بھی خوفزدہ ہے وہ مرنے والوں کی بجائے مارنیوالوں کی خبریں چھاپتاہے جس بھی اخبار یا رسالے کو اٹھاؤ تاثر ملتاہے کہ انتہاپسندی اور دہشت گرد ی کو سپورٹ کیاجارہاہے ،نیکٹا کے احسان غنی کی جانب سے بتایاگیاکہ نیشنل کاؤنٹر ایکسٹریم ازم پالیسی پر کام جاری ہے لیکن نیکٹا کو افرادی وقت کی بھی کمی ہے اس سلسلے میں وزیراعظم کو آگاہ کیاگیاہے تاہم نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی اور بورڈ کو نہیں بتایاگیاکہ انہوں نے کہاکہ نیکٹا کے پاس نہ صرف افراد قوت کی کمی ہے بلک ان کا اپنا دفتربھی موجود نہیں ،انہوں کہاکہ نیکٹا اپنا بینک نہیں رکھتی بلک ایف آئی اے کے ڈیٹا بینک پر انحصار کیاجارہاہے اس موقع پر کمیشن نے انہیں مختلف دستاویزات کی فراہمی کی بھی ہدایت کی اور بعد ازاں سماعت کو آج تک کیلئے ملتوی کردیاگیا آج وزارت دفعاکے ایدیشنل سیکرٹری مسعود حسین کابیان قلم بند کیاجائیگا۔