|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2016

کیوبا میں سابق صدر فیدل کاسترو کے انتقال کے بعد نو روزہ سوگ کا آغاز ہو گیا ہے جس کے دوران ان کی باقیات کو ان راستوں پر لے جایا جائے گا جن پر سے گزر کر ان کے ساتھیوں نے بتیستا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں غم کا سماں ہے جبکہ میامی میں وہ کیوبن افراد جو وہاں مقیم ہیں جشن منا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ کیوبا کے انقلابی رہنما اور سابق صدر جمعے کی رات 90 برس کی عمر میں انقتال کر گئے تھے۔ عالمی سربراہان اور اہم شخصیات کی جانب سے فیدل کاسترو کے انتقال پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ وہ کیوبا کے سابق صدر فیدل کاسترو کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے تھے جبکہ چین اور روس کے صدور نے کہا ہے کہ ان کے ممالک نے ایک اچھا دوست کھو دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ فیدل کاسترو کو کیوبا میں تعلیم، ادب اور صحت جیسے شعبوں میں بہتری لانے کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے علاوہ پاپ فرانسس جنھوں نے گذشتہ سال فیدل کاسترو سے ملاقات کی تھی نے ان کے بھائی کو بیجھے پیغام میں دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو ایک ‘ظالم آمر’ تھے جنھوں نے کئی دہایوں تک اپنے ہی لوگوں پر ظلم کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اب کیوبن عوام مزید آزاد مستقبل کی جانب بڑھیں گے۔ فیدل کاسترو کی یک جماعتی حکومت نے کیوبا پر تقریباً نصف صدی تک حکومت کی اور 2008 میں اقتدار اپنے بھائی راؤل کاسترو کو منتقل کر دیا۔ ان کے مداحین ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ انھوں نے کیوبا واپس عوام کو سونپ دیا۔ تاہم ان کے مخالفین ان پر حزب اختلاف کو سختی سے کچلنے کا الزام لگاتے ہیں۔ صدر راؤل کاسترو نے رات گئے سرکاری ٹیلی وژن پر ایک غیر متوقع خطاب میں بتایا کہ فیدل کاسترو انتقال کر گئے ہیں اور ان کی آخری رسومات سنیچر کو ادا کی جائیں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘کیوبا ایک مطلق العنان جزیرہ ہے، میں امید کرتا ہوں کہ آج کے دن سے وہ اس خوف سے آگے بڑھیں گے جو انھیں نے طویل عرصے تک جھیلے ہیں، اور بہترین کیوبن عوام بالآخر مستقبل کی جانب بڑھیں گے اور آزادی کے ساتھ رہ سکیں گے جس کے وہ مستحق ہیں۔’ خیال رہے کہ صدر اوباما کے دور میں امریکہ اور کیوبا کے درمیان سفارتی تعلقات سنہ 2015 میں کئی دہائیوں کے بعد بحال ہوئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اس پر تنقید کا اظہار کیا تھا لیکن اپنے حالیہ بیان میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا، ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ جو کچھ کر سکے کرے گی تاکہ کیوبا کے لوگوں کا ‘آزادی اور خوشحالی کی جانب سفر کو یقینی بنایا جاسکے۔’ دوسری جانب صدر اوباما کا کہنا ہے کہ تاریخ ‘کاسترو کے بے پناہ اثر کو پرکھے گی اور یاد رکھے گی۔’ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ‘کیوبا کے عوام کی جانب دوستی کا ہاتھ’ بڑھا رہا تھا۔ فیدل کاسترو کا شمار بیسویں صدر میں طویل ترین عرصہ تک برسراقتدار رہنے والے حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 2006 میں صحت کی خرابی کے باعث عارضی طور پر اپنے بھائی کو اقتدار سونپا تھا۔ تاہم دو سال بعد ان کے بھائی راؤل کاسترو باقاعدہ طور پر کیوبا کے صدر بن گئے تھے۔ ان کی آخری رسومات سنیچر کو ادا کی جائیں گے جبکہ چار دسمبر تک ملک میں سرکاری سطح پر سوگ منایا جائے گا جب ان کی جسدخاکی کو نذر آتش کرنے کے بعد اس کی راکھ کو جنوب مشرقی شہر سان تیاگو میں دفن کیا جائے گا۔