خضدار : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی قائمقام صدر ملک ولی کاکڑ اور بی ایس کے مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ نے کہا ہے کہ تارکین وطن کی واپسی کے بغیر مردم شماری کا انعقاد ظالمانہ عمل ہو گا جسے ہم قبول نہیں کرئینگے ،بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ طویل ہے ،نسل کشی تو اپنی جگہ بلوچستان میں تعلیم ،صحت ،روزگار،وسائل کی لوٹ مار میں بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں ،تارکین وطن کو اب بھی شناختی کارڈز جاری ہو رہے ہیں وہ پیسے کے بل بوتے پر شناختی کارڈ حاصل کرتے ہیں ،سانحہ کوئٹہ پر بننے والے کمیشن کو ورثاء قبول نہیں کرتے تو ہم کیا کرئینگے ،مبینہ آپریشن ،قحط سالی ،اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر چکی ہے ان کو واپس لانے کے لئے اقدامات کیں جائیں ،بی این پی ترقی مخالف نہیں سی پیک کے مسئلے پر بلوچستان کے عوام پر خدشات دور کر کے ان کی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے قانون سازی کی جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے خضدار پریس کلب میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا اس موقع پر ،بی این پی ضلع خضدار کے سینئر نائب صدر حیدر زمان بلوچ ،تحصیل خضدار کے صدر سفر خان مینگل ،شوکت سیاپاد اور حاجی منیر رند ودیگر بھی موجود تھے بی این پی اور بی ایس او کے مرکزی قائدین نے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مارچ میں مردم شماری کی جو تاریخ سپریم کورٹ میں جمع کی ہے اس حوالے سے بی این پی بڑا واضح موقف رکھتی ہے کہ طارقین وطن چاہئے ان کا تعلق افغانستان سے ہوں یا کہ کسی اور ملک کے سے ان کے انخلا ء کے بغیر مردم شماری کا انعقاد نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تصور ہو گی بلکہ یہ بلوچ قوم کے خلاف ظالمانہ اقدام ہو گا بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال ،مبینہ آپریشن اور طویل قحط سالی کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں مقامی لوگ دوسرے صوبوں کی جانب نقل مکانی کر چکے ہیں حکومت پہلے طارکین وطن کی واپسی اور یہاں سے نقل مکانی کرنے والے مقامی آباد ی کو دوبارہ لانے کی بندوبست نہیں کرکے اس وقت تک مردم شماری بلوچستان پر ڈائے جانے والے مظالمین میں سے ایک ہو گا انہوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ تارکین وطن کی شناخت کارڈ ز نہیں بن رہے ہیں یا ان کی شناختی کارڈز بلاک ہے انہوں نے کہا کہ آج بھی بڑی تیز ی سے تارکین وطن کو شناختی کارڈز مل رہے ہیں اور وہ پیسے کے بل بوتے پر شناختی کارڈز حاصل کر رہے ہیں ایک سوال کے جواب میں بی این پی کے مرکزی رہنماء کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ انتہائی طویل اس کے علاوہ یہاں کے لوگوں کو تعلیم صحت روزگار اور آزادانہ ماحول نہ دے کر بھی یہاں کے لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے سی پیک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی با شعور قوم ترقی کی مخالف نہیں ہو سکتی اور ہم بھی ترقی کے خواہاں ہے مگر سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کے عوام کے خدشات دور کرنے کی ضرورت ہیں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ سی پیک کی وجہ سے بیرونی قوتیں یہاں امن و امان کا مسئلہ پید ا کر رہے ہیں مگر یہاں تو مظالم کا سلسلہ ستر سالوں سے ہیں سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے جو کمیشن بن گئی ہے اسے ورثاء نہیں مانتے تو ہم کیسے ما ن سکتے ہیں یہاں کی تاریخ گوہ ہے کہ جس مسئلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا ھو اس پر کمیشن تشکیل دی جاتی ہے ہمیں بتایا جائے کہ لیاقت علی خان سے لیکر بینظیر کی شہادت تک کتنے کمیشن بنے اور کیا نتائج نکلے ؟ ۔