اسلام آباد: جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن میں ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے اور رپورٹ کسی الماری میں پڑی ہو گی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پر 6 ماہ کام کیا اور اس میں تمام ذمہ داروں کا تعین کر لیا تھا لیکن اس وقت کے آرمی چیف کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا، کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی تھیں اگر ان پر عمل درآمد ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے اور نئے ادارے بنانے کی ضرورت نہ پڑتی۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کسی الماری میں پڑی ہوگی، کمیشن کی تفصیلات پر بات نہیں کر سکتا لیکن اسے منظر عام پر لانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ میری بیٹی نے مجھ سے پوچھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں تھے یا نہیں، میں نے کہا کہ اگر یہ بتا دوں تو پیچھے رہ کیا جاتا ہے۔ آئی ایس آئی سربراہ 2 بار کمیشن کے سامنے پیش ہوئے لیکن واقعہ کے شواہد عدالت میں پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ جن اینکرز کو بلوچستان کے رقبے کا بھی نہیں پتہ وہ لا پتہ افراد کی بات کرتے ہیں، آئی ایس آئی اور آئی ایم آئی کو لا پتہ افراد کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ ایک ادارے میں تو ہزاروں افراد ہوتے ہیں، لیکن کوئی کسی بھی ادارے کا کتنا بڑا افسر کیوں نہ ہو، بچ نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے لا پتہ افراد کے حوالے سے اچھا کام کیا جب کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے تعاون کیا لیکن پنجاب حکومت نے ہمیں آفس کے لئے کمرہ تک نہیں دیا، ہمیں لاہور میں میٹنگ کیلیے کمرہ کرائے پر لینا پڑتا ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ جس ادارے سے متعلق شکایت آتی ہے اس ادارے کے حکام کو طلب کیا جاتا ہے لیکن لاپتا افراد کمیشن سے کوئی ادارہ تعاون نہیں کررہا۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے ابھی تک آئی ایس آئی کے سربراہ کو نہیں بلایا لیکن آئی ایس آئی کے بریگیڈیئراور کرنل سطح کے افسران کمیشن کی معاونت کرتے ہیں، لا پتہ افراد سے متعلق آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کی ٹھوس شہادت نہیں۔
کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ ایک وقت میں لاپتہ افراد کے کیسز کی تعداد 136 سے بڑھ کر 3 ہزار 692 ہو گئی تھی لیکن کمیشن اب تک 2 ہزار416 مقدمات کا فیصلہ کرچکا ہے، اب ایک ہزار 276 مقدمات کا فیصلہ باقی ہے جن میں سے بلوچستان کے 96، خیبر پختونخوا کے 654، آزاد کشمیر کے 11 اور گلگت بلتستان کے 4 افراد شامل ہیں۔