|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2016

اسلام آباد: ایوان بالا میں سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر جمعرات کو تحریک التواء پر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے کہا کہ بلوچستان میں ہونیوالا یہ واقعہ بڑا دردناک تھا جس میں بلوچستان کے سینئر وکلاء شہید ہوئے،پہلے ایک سینئر وکیل اور صدر بلوچستان بار کو قتل کیا گیا اور پھر اس کے بعد خودکش حملہ کرایا گیا اس واقعے پر کمیشن بنایا گیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس کمیشن کا سربرہ بنایا گیا۔ کمیشن میں48گواہوں کو بھی بلایا گیا اور کمیشن نے اضافی وقت بھی مانگا تاکہ صحیح واضح جامع رپورٹ تیار کی جاسکے،یہ رپورٹ110 صفحات پر مشتمل ہے اور یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوگی،رپورٹ میں ثبوت موجود ہیں جس کی وجہ سے کوئی فرد اس میں آسکتا ہے،رپورٹ میں وزارت داخلہ اور بلوچستان حکومت کا ذکر بھی ہے اس کو حتمی بھی نہیں کہا جاسکتا ہے اور اگر وزارت داخلہ اس رپورٹ بارے اپنی صفائی پیش کرنا چاہتی ہے تو اس کو حق حاصل ہے یہ کوئی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج نے نہیں کی بلکہ سپریم کورٹ کے جسٹس نے تیار کی ہے،رپورٹ کے بعد پارلیمانی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ پارلیمانی سیاسی اخلاقی اقدار کے مطابق ایسے بندے کو اپنی استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ وہ شخص بجائے استعفی دے وہ میڈیا پر انکوائری کمیشن اور جج کو اس طرح پڑتے ہیں کہ وہ سمجھ سے بالاتر ہے،خطرے کی گھنٹی سن رہے ہیں جس کی بنیاد حکمرانوں کی عدلیہ سے متعلق تاریخ ہے اور عدلیہ پر گزشتہ یلغار سے خطرے کی گھنٹیاں مزید تیز بج رہی ہیں۔چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ 1993ء میں جب صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت کو ختم کردیا لیکن سپریم کورٹ کے11رکنی بنچ نے نواز حکومت کو بحال کرایا ،کرپشن کے الزام پر حکومت نے فیصلہ دیا کہ 58-2B غلط ہے اور کرپشن پر استعمال نہیں ہوسکتا لیکن مئی1996ء میں بے نظیر کی حکومت پر سابق صدر فاروق لغاری نے بھی یہی کام کیا اور جب ہم سپریم کورٹ گئے تو وقت سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا کہ کرپشن الزامات پر58-2B استعمال ہوسکتا ہے ۔اصغر خان کیس میں جسٹس باقر کی رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے کون لوگ ملوث تھے اور رپورٹ کو دبا دیا جاتا ہے۔حکومت کا قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق رویہ کوئی ٹھیک نظر نہیں آرہا،حکومت کو اپنی جبلتوں سے باہر آکر صبر سے کام لینا چاہئے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئٹہ پر اس کا کیا اثر پڑے گا ان کو اس کا کیا فائدہ ہوگا حکومت کو سوچنا ہوگا۔سینیٹر سحرکامران نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ کے رپورٹ پیش کرنے اور پھر اسے ٹھیک کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں نیشنل ایکشن پلان تو ایکشن پلان پنجاب بن گیا ہے،سندھ میں تو آپریشن ہوتا ہے لیکن پنجاب میں اس کا کوئی بھی عمل نظر نہیں آتا بلکہ ایک کالعدم تنظیم کا سربراہ الیکشن جیت کر پنجاب اسمبلی کا ممبر بن جاتا ہے،28 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت میں کالعدم تنظیموں نے فعہ144کے باوجود جلسہ کیا اور فرقہ واریت کے حوالے سے نعرے بازی بھی کی گئی کیا ان لوگوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ18اگست کے واقعہ میں ایک پروگریسو سوچ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کرپشن اور دیگر مسائل بھی اہم ہیں لیکن وہ صوبے جہاں لوگوں کو سیاسی سوچ موجود ہے اور پروگریسو سوچ رکھتے ہیں ان لوگوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،رپورٹ کے بعد وزیرداخلہ کا رویہ انتہائی جارحانہ تھا یہ ان کی ذات کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ اگر کسی بھی ملک میں ایسی کوئی رپورٹ پیش کی جاتی تو اسے قبول کیا جاتا اگر وزارت داخلہ نے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنی ہی نہیں ہے تو پھر اس کا کیا جواز ہے۔مولانا عبدالعزیز نے خود کہا ہے کہ وہ داعش کو پسند کرتے ہیں اور ان کے مدرسے کی عورتیں کہتی ہیں کہ ہم داعش کا ساتھ دیں گے لیکن وزارت داخلہ کہتی ہے کہ وہ بہت شریف انسان ہیں ،رپورٹ میں پولیس ایف سی نیکٹا کی کوتاہیوں کا ذکر بھی کیاگیا ہے۔ آپ دہشتگردی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کو چائے پر بلا لیتے ہیں کالعدم سربراہوں کو چھ چھ گاڑیاں دے رکھی ہیں اور یہ لوگ ہمارے بچوں کو مارتے اور گلے کاٹ رہے ہیں آپ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہی نہیں کر رہے حکومت صرف دہشتگردوں کی حفاظت کر رہی ہے اور لوگوں کے خلاف سازش کر رہی ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ رپورٹ کے28 نکات کو پڑھ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کیسی رپورٹ ہے حکومت ملک کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا اسلام آباد میں کالعدم تنظیم نے جلسہ کیا تو وزیرداخلہ کہتا ہے کہ ان کو اجازت دینا میرا کام نہیں تھا۔وزیرداخلہ کالعدم تنظیموں سے ہمدردی رکھتا ہے،قومی سلامتی کو مستحکم بنانے کیلئے وزیرداخلہ سے استعفی لیا جائے اور کابینہ سے نکالا جائے۔لیڈر آف ہاؤس راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ایوان میں رپورٹ پر بات کی بجائے صرف چوہدری نثار علی خان کے خلاف ہو رہی ہے اور غبار نکالا جارہا ہے اور اس کا فائدہ نہیں ہوگا،جس آرمی پر الزامات لگائے گئے ہیں وہ اپنا مؤقف بھی بیان نہ کرے یہ تو غلط ہے،اگر کسی پر تہمت لگائی جائے اور وہ اپنا منہ کھولے تو اس پر تنقید کرنا انتہائی غلط ہے بدقسمتی ہے کہ ملک میں الزامات لگانے کی سیاست کا دور دورہ ہے سینیٹ سے امید تھی کہ وہ رپورٹ پر بات کریگی لیکن اپوزیشن نے صرف ایک شخص کو تنقید کا نشانہ بنا کر غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا ہے۔چےئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے ساتھ کسی نے بدتمیزی نہیں کی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس کا کوئی بھی وزیر آکر جواب دے لیکن بہتر یہ ہوتا کہ وزیرداخلہ خود آکر تحریک التواء پر بحث کو سمیٹتے۔ کوئٹہ ہسپتال میں 8اگست کو ہونے والے دہشتگرد حملے کے حوالے سے تحریک التواء پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیرمملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں پہلی حکومتوں کے مقابلے میں واضح کمی رونما ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں کوئٹہ8اگست کو ہونے والے واقعہ کی رپورٹ جو منظر عام پر آئی ہے اس کے حوالے سے وزیرداخلہ چوہدری نثار کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جو جلسہ ہوا وہ شہداء پاکستان کے زیر اہتمام کیا گیا تھا اور وہ یہ جلسہ پانچ سال سے ہورہا ہے اور اسے کسی کالعدم تنظیم نے آرگنائز نہیں کیا تھا اور جن کالعدم تنظیموں کے نمائندوں نے اس میں شرکت کی تھی ان کے خلاف آبپارہ تھانہ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔انہوں نے وزیرداخلہ چوہدری نثار کی جانب سے مولانا احمد لدھیانوی کے ساتھ ملاقات پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیرداخلہ کے ساتھ ملاقات کی درخواست دفاع پاکستان کونسل کی جانب سے کی گئی تھی جو کہ کالعدم نہیں ہے اور اس میں مولانا لدھیانوی بھی آئے تھے جنہوں نے اپنے شناختی کارڈ کے سلسلے میں چوہدری نثار سے بات کی۔انہوں نے کہا کہ حکومت شیڈول چار میں آنے والی تنظیموں اور افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا جارہا ہے اور اس ضمن میں دہشتگرد اور شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔انہوں نے کہا کہ نیکٹا کو مزید فعال بنایا جارہا ہے اور اس میں اس وقت 100سے زائد افراد کام کر رہے ہیں اور مزید آسامیوں کیلئے اشتہار دئیے گئے ہیں جبکہ نیکٹا کا بجٹ سوا نو کروڑ سے بڑھا کر ڈیڑھ ارب کیا گیا ہے،نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کو نیکٹا میں ضم کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مختلف کارروائیوں میں لاؤڈ سپیکر کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف 15600سے زائد مقدمات درج کئے گئے ہیں،جن دکانوں میں شدت پسندی اور فرقہ واریت کے حوالے سے مواد شائع ہوتا ہے ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 70 مقامات کو بند کردیاگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے وزیراعظم،وزیرداخلہ اور سلامتی کے مشیر خود رپورٹس کو مانیٹر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انسداد دہشتگردی فورس میں وفاقی حکومت،چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں لوگوں کی تقرریاں ہو چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ شدت پسندی میں ملوث 2000سے زائد مدارس کو ملک بھر میں بند کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ فاٹا میں اصلاحات لائی جارہی ہیں،شدت پسندی کے نیٹ ورک اور مواصلاتی نظام کو توڑنے کیلئے موبائل سیموں کو سو فیصد بائیومیٹرک کے ذریعے تصدیق کی گئی ہے اور تصدیق نہ ہونے والی سموں کو بند کردیاگیا ہے،سائبر کرائم بل لایا گیا ہے جس کے ذریعے سینکڑوں غیر قانونی ویب سائٹس کو بند کردیاگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پنجاب میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی۔انہوں نے کہا کہ وہاں پر بھرپور کارروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں،کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر ملک بھر میں بم دھماکوں اور دہشتگردی میں نمایاں کمی آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جعلی شناختی کارڈ رکھنے والوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے اور افغان پناہ گزین اپنے ملک واپس جارہے ہیں۔قبل ازیں بحث میں حصہ لیتے ہوئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جہانزیب جمالی،جن کا بیٹا کوئٹہ حملے میں شہید ہوا تھا ،کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ اہم موضوع پر بات ہورہی ہے لیکن کورم بمشکل پورا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں،عوام کے حالات زار خراب ہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے جو رپورٹ آئی ہے اس میں صحیح کمی اور کوتاہیوں کو سامنے لایا گیا ہے۔پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی رپورٹ کو منظر عام پر لانا ایک اچھا قدم ہے۔انہوں نے کہا حکومت کنفیوز ہے،نیکٹا کے پاس دہشتگردی میں ملوث لوگوں کی فہرست ہی موجود نہیں اور وہ دہشتگردوں کو سامنے لانے کے بجائے ان کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیرداخلہ نے ان کیمرہ اجلاسوں میں ارکان کو صحیح معلومات فراہم نہیں کیں۔مسلم لیگ(ن) کے نہال ہاشمی نے کہا کہ یہاں پر پوائنٹ سکورننگ کیلئے بات کی جارہی ہے اور تجاویز بہتری کیلئے دی جانی چاہئیں۔انہوں نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کاش وہ اپنے گورنر اور وزراء کی کارکردگی کے بارے میں بھی بات کرتے۔جمعیت علماء اسلام(ف) کے حافظ حمد اللہ نے کہا کہ تحریک التواء پیش کرنے والے اراکین میں سے اکثریت موجود نہیں۔انہوں نے کہا کہ واقعے میں بلوچستان کے اکثر قابل اور تجربے کار وکلاء شہید ہوئے جن کی کمی صوبے میں آئندہ پچاس سال تک بھی شاید پوری نہ ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں مختلف اداروں پر تنقید کی گئی ہے صرف وزیرداخلہ پر نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ تمام ادارے دہشتگردی روکنے میں ناکام رہے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔مسلم لیگ(ق) کے سعید مندوخیل نے کہا کہ یہ عمل قابل افسوس ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پختون سینیٹر نے اہم موضوع پر بحث ہونے کے باوجود بھی کورم کی نشاندہی کی۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ رپورٹ کو خوش دلی سے تسلیم کیا جائے اور جو کمی کوتاہی ہے ان کو دور کیا جائے۔تحریک پر بحث کرتے ہوئے داؤد اچکزئی نے کہا کہ وزیرداخلہ نے کالعدم تنظیم کے نمائندے مولانا احمد لدھیانوی سے ملاقات کی اور کالعدم تنظیمیں اسلام آباد میں کھلے عام جلسے کرتی ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر(ر) عبدالقیوم نے کہا کہ مشرف اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں حالات اتنے خراب تھے کہ اسلام آباد میں قومی دن کے موقع پر پریڈ بھی نہیں ہوتی تھی۔انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں جو باتیں آئی ہیں ان میں سے بہت سی باتوں پر اتفاق کرتا ہوں لیکن کچھ نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ ہماری ناکامیاں اور کامیابیاں اکٹھی ہیں ہمیں ذاتی لڑائی میں نہیں پڑنا چاہئے۔مسلم لیگ(ن) کے ہی سلیم ضیاء نے کہا کہ یہ رپورٹ حتمی نہیں،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اس رپورٹ کو جواز بناتے ہوئے وزیرداخلہ پر صرف تنقید کر رہے ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے ہی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ایبٹ آباد واقعے کے دوسرے دن اس وقت کے صدر نے امریکی اخبار میں مضمون لکھا اور اسے فتح قرار دیا تو اس وقت استعفیٰ کی بات کیوں نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار کے آنے سے دہشتگردی کے واقعات میں ساٹھ سے ستر فیصد کمی رونما ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک پارٹی کا ہی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کہتا ہے کہ نامزد چیف جسٹس ثاقب نثار اچھے آدمی ہیں اور اسی پارٹی کا قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کہتا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار (ن) لیگ کا آدمی ہے،ان کو پہلے آپس میں ہی اختلاف دور کرنا چاہئے۔جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ ایک دوسرے پر الزام بازی سے گریز کرنا چاہئے