|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کیس کو کسی صورت التواء کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا اور سماعت روزانہ صبح9 سے ایک بجے تک ہوگی ،کوئی بھی چیز بغیر سنے نہیں جانے دی جائے گی ، کیس کے ہر فریق کو سنا جائے گا ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل کو طلب کرتے ہوئے نئے سوالات اٹھا دیئے ،بتایا جائے نواز شریف پنجاب کے وزیرخزانہ کب بنے ؟ نواز شریف وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف دوسری بار وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف ملک بدر کب کیے گئے ؟ بتایا جائے نواز شریف 1980 سے 1997 تک کاروبار اور سرکاری عہدہ رکھتے تھے ،ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم نے عوامی عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ نے ازسر نو پاناما کیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی، سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ججز اور عدلیہ کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے،عمران خان کے احتجاج سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے، آف شور کمنپیاں تو جہانگیر ترین اور رحمان ملک کی بھی ہیں، اس لئے عدالت سے درخواست ہے کہ تمام افراد کے خلاف تحقیقات کی جائے اور معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جائے۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ معاملے کی سماعت کے لیے نیا بینچ بنایا گیا جو تمام دستاویزات کاجائزہ لے گا، کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کریں گے اور کسی کوالتواء نہیں ملے گا۔تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل کے آغاز پر کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کے نئے بینچ پر کوئی اعتراض نہیں۔ جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ بنچ پر اعتراض نہیں تو میڈیا پر بیان بازی سے گریز کریں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ میں نے نئے ببنچ سے متعلق میڈیا پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے وزیراعظم کی 4 اپریل کی تقریر کا حوالہ دیا، نعیم بخاری کا کہناتھا کہ نواز شریف نے غلط بیانی کی، وہ صادق اور امین نہیں رہے، نااہل قراردیا جائے، وزیر اعظم ٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے ہیں، عدالت ایف بی آر کو ٹیکس ریکوری کا حکم دے۔نعیم بخاری نے دلائل میں مزید کہا کہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جدہ اسٹیل مل کی فروخت سے لندن میں فلیٹس لیے، شریف خاندان کی دبئی میں سرمایہ کاری بے نامی تھی، مریم نواز آج بھی اپنے والد کے زیر کفالت ہیں،آئی سی آئی جے کی دستاویزات کو ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔نعیم بخاری نے مزید کہا کہ چیئرمین نیب اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے،عدالت چیئرمین نیب کوتاخیرکے باوجود ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیلکرنے کا کہے۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ چیئرمین نیب اپنا جواب جمع کراچکے ہیں، چیئرمین نیب کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔دلائل کے دوران نعیم بخاری نے وزیر اعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ نواز شریف نے تقریر میں کہا کہ جدہ سٹیل مل کی فروخت سے لندن فلیٹس لئے، ان کے پاس سعودی عرب اور دبئی میں سرمایہ کاری کے ثبوت ہیں لیکن یہ سچ نہیں، شریف فیملی کی جانب سے بینک ٹرانزیکشن کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا، طارق شفیع کاحلف نامہ جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حلف نامہ اور فیکٹری کے دستاویزات میں دستخط ایک جیسے نہیں، آئی سی آئی جے کی دستاویزات کو ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا، نواز شریف نے غلط بیانی کی، وہ صادق اور امین نہیں رہے ، اس لیے نوازشریف کو نااہل کیا جائے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ نواز شریف کی تقریر میں دوبئی فیکٹری کا کوئی ذکر نہیں، نواز شریف کی تقریر جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کی مطابقت بھی واضع کریں۔ جسٹس اعجازالحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ آپ کا انحصار وزیر اعظم کی دو تقریروں پر ہے،کیا وزیر اعظم کی یہ دستخط شدہ دستاویز ہیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس وزیر اعظم کی دستخط شدہ کوئی دستاویز نہیں ہے، آئی سی آئی جے کی دستاویزات اور رپورٹس عالمی سطح پر جاری ہوئیں لیکن انہیں ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔عمران خان کے وکیل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ اثاثوں سے متعلق وزیراعظم اور ان کے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے، وزیراعظم نے کہا کہ گلف سٹیل کے بعد جدہ مل خریدی جبکہ بچوں نے کہا کہ گلف مل کے بعد قطر میں سرمایہ کاری کی۔ جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ کیا قطر میں سرمایہ کاری کا ریکارڈ ہے ، نعیم بخاری نے جواب میں کہا کہ اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ قطر سے لندن تک کوئی بینک ٹرانزیکشن موجود نہیں، سب کام ہوا میں کیا گیا ہے ، فلیٹ نمبر 16 اور 16 اے 10 جولائی 1995 میں ایک ملین 75 ہزار پاؤنڈ میں خریدے گئے، دونوں فلیٹس نیلسن کمپنی نے خریدے۔ فلیٹ نمبر 17 اے 23 جولائی 1996 میں 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ میں خریدا گیا۔ لندن فلیٹس کی حقیقی مالک مریم صفدر ہیں اور وہ وزیراعظم کی زیرکفالت ہیں۔اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اب تک مختلف موقف سامنے آئے ہیں، دبئی سے قطر اور قطر سے جدہ اور جدہ سے لندن کے موقف سامنے آئے ہیں، شیخ رشید نے کہا تھا کہ پیسہ برکت والا ہے 2006 تک پیسہ خودبخود بڑھتا رہا، وزیراعظم نے کسی خطاب اور جواب میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، ہمیں ایسا ریکارڈ نہیں دیا گیا کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ فلیٹ 2006 سے پہلے قطری خاندان کے تھے۔ ملکیت ثابت کرنا اتنا آسان نہیں اور معاملہ ملکیت کا نہیں بلکہ ملکیت کی تاریخوں کا ہے، اگر جائیداد میاں شریف کی تھی تو اس کا بٹوارہ سب میں ہونا چاہئے تھا، قطر کے الثانی اورشریف خاندان کا معاملہ کسی فورم پر تو طے ہوا ہوگا، میاں شریف کی وصیت تھی تواس کوبھی سامنے آنا چاہئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ انصاف عدالت کے سامنے موجود شواہد کی بنیاد پر ہوتاہے ، انصاف وہ نہیں جو آپ کے موکل عمران خان کہیں۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ مجھے عدالت پر پورا بھروسہ ہے۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم کے بقول اتفاق فیکٹری قومیائی گئی تو شریف خاندان کے پاس روپیہ بھی نہ رہا ، سوال یہ ہے کہ شریف خاندان کے پاس پیسہ کیسے آیا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دبئی سٹیل مل کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ فیکٹری کی فروخت پر کیا کیا گیا ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ فیکٹری فروخت کے معاہدوں میں بینک گارنٹی موجود ہے ، اس کا مطلب ہے بینک کی ٹرانزیکشن ہوئی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ دبئی سے رقم قطر یا جدہ کیسے گئی ، رقم منتقلی کی بینک ٹرانزیکشن کہاں ہے ، جسٹس آصف نے کہا کہ وزیر اعظم نے تقریر میں کہا کہ گلف فیکٹری سے 33 ملین درہم ملے ، طارق شفیع کے مطابق گلف فیکٹری سے 12 ملین درہم ملے ، جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ فیکٹری کے واجبات کا کیا بنا ، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ، فیکٹری سے 12 ملین درہم ملے جو ریکارڈ پر ہے ، وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ وزیراعظم نے کہا کہ جدہ فیکٹری دبئی کے سرمائے سے لگائی ، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ واجبات ادا ہوئے تو ہمیں اندھیرے میں کیوں رکھا جا رہا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل کے سامنے نئے سوالات اٹھا دیئے ، بتایا جائے نواز شریف پنجاب کے وزیرخزانہ کب بنے ؟ نواز شریف وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف دوسری بار وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف ملک بدر کب کیے گئے ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ نواز شریف 1980 سے 1997 تک کاروبار اور سرکاری عہدہ رکھتے تھے ، دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم نے عوامی عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رقم کی دبئی سے قطر جدہ منتقلی کی تفصیلات دوسرا فریق دے گا ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ رقم کی منتقلی سے متعلق دبئی اور قطر کے قوانین کیا ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر دبئی اور قطر میں قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان میں سزا ہو سکتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 12 ملین درہم دو دہائیوں تک کہاں رہے ، وزیر اعظم کے بقول دبئی سرمایہ کاری کی رقم بیرون ملک ہے ، بعد میں بتایا کہ 12 ملین درہم کی رقم قطر میں لگائی ، وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں غلط حقائق بیان کیے ، وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں جھوٹ بولا ، وزیر اعظم کے بیان میں قطر کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نے آپ کا پوائنٹ نوٹ کر لیا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت سے ایسی تشریح نہ کروائیں جس سے کوئی الیکشن لڑ نہ سکے۔ جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ آئینی و قانونی حق پر قدغن نہیں لگاتے ، ہمارے سوال یا آبزرویشن کو فیصلہ بنا کر پیش نہ کریں ، مشکل سوال بھی پوچھتے ہیں کہ تاکہ وکیل گھبرا کر سچ بول دے ، ہم سوالات سے چیزیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہمارے سوالات اور آبزرویشنز کو زیر غور نہ لایا جائے۔پوراپاکستان پریس کانفرنس کے لیے پڑا ہے، عدالت کوسیاسی اکھاڑہ نہ بنائیں، عدالت میں پریس کانفرنس نہیں ہونی چاہئے، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا، کم از کم احاطہ عدالت میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔