|

وقتِ اشاعت :   January 25 – 2017

اسلام آباد:سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکر ٹریٹ نے بلوچستان کے گریڈ21اور20کے افسران کیلئے وفاق میں اور بیرون ملک پوسٹنگ کیلئے10سال صوبے میں سروس لازمی قرار دینے کے وفاقی حکومت کے نوٹی فکیشن کو واپس لینے کی سفارش کر تے ہوئے کہا ہے کہ ایسے نوٹی فکیشن بلوچستان کے گریڈ 20 اور21 کے افسروں کے ساتھ امتیازی روئیے کا عکاس ہے ، ایسی پالیسیوں سے بلوچستان میں احساس محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے،اگر ایسی پالیسی بنانی ہے تو تمام صوبوں کیلئے ہونی چاہیے۔ کمیٹی میں انکشاف کیا گیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کیلئے پانی کی فراہمی کیلئے بنائے جانے والے چراہ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے منصوبے کی لاگت 5 ارب سے بڑھ کر 17 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے،منصوبہ مکمل ہو بھی جائے تو پانی اتنا مہنگا ملے گا کہ کوئی خرید نہیں سکیگام، کمیٹی نے چیف سیکرٹری پنجاب سے منصوبے میں تاخیر اور لاگت میں اصافے سے متعلق رپورٹ 15 دن میں طلب کر لی اور سی ڈی اے اور وزارت کیڈ کو ہدایت کی کہ 6 ہفتوں میں اسلام آباد میں پانی کی کمی پر قابو پانے اور قابل عمل منصوبے سے متعلق رپورٹ پیش کرے۔ منگل کو کمیٹی کا اجلاس چیئر مین سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا،جس میں کمیٹی ارکان سینیٹرز ہدایت اللہ،میر محمد یوسف بادینی ، کلثوم پروین ،نجمہ حمید،میر کبیر محمد احمد شاہی، فرحت اللہ بابر، سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل، نعمان وزیر خٹک کے علاو ہ ایڈیشنل سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن ، ایڈیشنل سیکرٹری کیڈ، چیئرمین سی ڈی اے،سیکرٹری سرمایہ کاری بورڈ، وائس چانسلر قائداعظم یونیورسٹی ، وائس چانسلر شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی، چیف انجینئر وزارت آبپاشی حکومت پنجاب، ایکس ای این سمال ڈیم و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کمیٹی ارکان نے مشترکہ سوال کیا کہ بلوچستان کے گریڈ0 2اور21 کے افسروں کیلئے کیوں لازمی ہے کہ وہ جب تک وہ دس سال تک اپنے صوبے میں سروس مکمل نہیں کرتا اس کی وفاقی حکومت اور بیرون ملک پوسٹنگ نہیں ہو سکتی،یہ امتیازی قانون صرف بلوچستان کے لئے کیوں ہے ؟۔جس پر ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن معروف افضل نے کہا کہ گریڈ 17 کے تمام افسروں کیلئے لازمی ہے کہ پہلے پانچ سال دوسرے صوبے میں سروس کریں گے،سی ایس ایس کے پہلے ٹاپ پانچ افسروں کے لئے بھی لازمی ہے کہ انکی پہلی پوسٹنگ لازمی بلوچستان اور گلگت بلوچستان میں ہو گی،جن افسروں کے پاس بلوچستان کا ڈومسائل ہے وہ بھی لازمی طور پر بلوچستان میں سروس کریں گے کسی کیخلاف امتیازی قانون نہیں بلکہ بلوچستان میں افسروں کی کمی کی وجہ سے یہ پالیسی اختیار کی گئی ،جس پر کمیٹی ارکان نے کہا کہ ایسی پالیسی سے بلوچستان میں احساس محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے،ایسی امتیازی پالیسی کے حق میں نہیں،صرف بلوچستان کے گریڈبیس اکیس کے افسروں کیلئے ایسی پالیسی کیوں نہیں ،باقی3 صوبوں کیلئے ایسی پالیسی کیوں نہیں ؟ جس پر کمیٹی نے 8 دسمبر2015کا نوٹیفیکشن واپس لینے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹیفیکشن بلوچستان کے گریڈ20 اور21کے افسروں کے ساتھ امتیازی روئیے کا عکاس ہے۔کمیٹی کو راولپنڈی اور اسلام آباد کیلئے پانی کی فراہمی کیلئے بنائے جانے والے چراہ ڈیم پر بریفنگ دیتے ہوئے پنجاب حکومت اور سی ڈی اے کہ حکام نے کہا کہ اسلام آباد راولپنڈی کے لئے پانی کی فراہمی کا چراہ ڈیم منصوبے کی تعمیر میں7 سال کی تاخیر کی وجہ سے اسکی لاگت 5 ارب سے بڑھ کر 17 ارب روپے تک پہنچ گئی،منصوبہ مکمل ہو بھی جائے تو پانی اتنا مہنگا ملے گا کہ ہم خرید نہیں سکیں گے۔جس پر کمیٹی نے چیف سیکرٹری پنجاب سے منصوبے میں تاخیر اور لاگت میں اصافے سے متعلق رپورٹ 15 دن میں طلب کر لی اور سی ڈی اے اور وزارت کیڈ کو ہدایت کی کہ 6 ہفتوں میں اسلام آباد میں پانی کی کمی پر قابو پانے اور قابل عمل منصوبے سے متعلق رپورٹ پیش کرے۔