|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2017

کوئٹہ: مردم شماری سی پیک افغان مہاجرین سے متعلق پارٹی کا اصولی موقف اور جدوجہد بہت سی قوتوں کو عزم نہیں ہوپارہی ہے بی این پی کی سیاست اور جدوجہد ایک کھلی کتاب کی طرح اہلیان بلوچستان کے سامنے ہے اور پارٹی کی جدوجہد کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا ہے پارٹی ہمیشہ بلوچ اور بلوچستانی عوام کی اجتماعی اور قومی مفادات کیلئے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی اور نہ کبھی خیرات کی صورت میں اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ان خیالات کااظہار بی این پی کے زیر اہتمام عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں کلی حسین آباد سریاب مل میں منعقدہ کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کوئٹہ کے قائمقام ضلعی صدر یونس بلوچ ، ڈپٹی جنرل سیکرٹری ملک محی الدین لہڑی ، جوائنٹ سیکرٹری محمد لقمان کاکڑ، لیبر سیکرٹری ڈاکٹر علی احمد قمبرانی ، احمد نواز بلوچ، آغاخالد شاہ دلسوز حاجی محمد ابراہیم پرکانی میر عزیز اللہ شاہوانی اورڈاکٹرنور محمد مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر اسٹیج سیکرٹری کے فرائض پارٹی کے ضلعی سیکرٹری اطلاعات اسد سفیر شاہوانی نے سرانجام دیئے اس موقع پر پارٹی کے مرکزی کونسلران ہدایت اللہ جتک ، ثناء مسرور بلوچ، غلام مصطفیٰ مگسی ، شوکت بلوچ عالم زیب مری ،اور دیگر بھی موجود تھے بی این پی کے رہنماؤں نے کہا کہ ہم ترقی اور مردم شماری کے ہر گز مخالف نہیں ہیں لیکن بلوچ عوام کے خدشات اور تحفظات کو دور کئے بغیر ایسے ترقی اور مردم شماری متنازعہ مسائل کا سبب بنے گے جسے دور کرنے کی ضرورت ہیں پارٹی نے ہمیشہ یہ اصولی موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ سب سے پہلے یہاں کے عوام کی مفادات کا خیال رکھا جائے ماضی گواہ ہے کہ یہاں سے شروع ہونے والے تمام میگا منصوبوں میں یہاں کے عوام کی رائے مرضی اور منشاء کو نظرانداز کیا اور اہمیت نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں یہاں سے شروع ہونے والے ترقی کے نام پر میگا منصوبے یہاں کے عوام کیلئے استحصال پسماندگی کا سبب بنے اور ہمارے وسائل نہایت ہی بے دردی سے لوٹا گیا جس کے نتیجے میں آج یہاں سیاسی طور پر بحرانی کیفیت کا عالم ہے اور یکے بعد دیگرے بحرانات جنم لے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ سابق آمر کے دور میں شروع ہونے والے انسرجنسی کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں بلوچ عوام اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر دیگر صوبوں میں آئی ڈی پیز کے حوالے سے دربدر کی زندگیاں بسر کررہے ہیں اور بلوچستان کی مخدوش صورتحال میں کوئی بھی سرکاری ملازمین بلوچ علاقوں میں مردم شماری خانہ شماری کرانے کیلئے تیار نہیں ہیں اور تیسری طرف چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی اور ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں نے سرکاری دستاویزات بنا رکھے ہیں ایسے حالات میں کرائے جانے والا مردم شماری اور خانہ شماری یہاں کے تمام مقامی اقوام کیلئے مسائل کا سبب بنے گا یہ مسئلہ صرف بلوچوں کا نہیں بلکہ اس فیصلے سے یہاں کے مقامی پشتون آباد کار اور دیگر مکاتب فکر کے لوگ بھی متاثر ہونگے نادرا کے ایک رپورٹ کے مطابق آج بھی ساٹھ فیصد بلوچ نادرا کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایسے حالات میں بلوچوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا پالیسیاں مزید حساس محرومی اور دیگر ناانصافیوں کو جنم دینگے جو گذشتہ ستر سالوں سے بلوچ عوام کے ساتھ روا رکھے گئے پالیسیوں کا تسلسل ہے انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران اور دیگر بااختیار قوتیں بلوچ عوام کے عوام کے ساتھ جاری ناانصافیوں کا ازالہ کرتے اور احساس محرومیوں کے سلسلے کو بند کرتے ہوتے بلوچ عوام کو اعتماد میں لے کر ان کے رائے کو اہمیت دیتے تاکہ یہاں کے مسائل میں کمی ہوتی انہوں نے پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں سے کہا کہ وہ اپنے تمام تر توجہ اور توانائیاں بلوچ عوام کو متحد اور منظم کرنے پر مصروف رکھتے ہوئے آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے عوام سے اپنا قریبی رابطہ قائم رکھے چونکہ اس وقت بلوچستانی عوام کی نظریں بی این پی پر مرکوز ہیں چونکہ بی این پی نے کبھی بھی مشکل وقت میں یہاں کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑا اور ہر مشکل وقت میں یہاں کے عوام کے ساتھ ناانصافیوں کے خلاف آوازبلند کی اور لوگوں کے حقیقی حق کی ترجمانی کا کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں پارٹی کے عوامی پذیرائی اور تائید و حمایت میں اضافہ ہورہا ہے ۔