|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2017

نیویارک /واشنگٹن:امریکی عدالت نے ایئرپورٹ پر روکے گئے تارکین وطن کی بے دخلی روک دی ۔امریکی میڈیا کے مطابق یہ حکم نیویارک کے علاقے بروکلین کی ایک عدالت نے جاری کیا۔امریکہ کے شہر نیویارک کی ایک عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے پر عبوری طور پر عمل درآمد روک دیا ہے جس کے تحت سات مسلمان اکثریتی ممالک سے پناہ گزینوں کی امریکی آمد پر پابندی لگا دی گئی تھی۔امریکی شہری آزادی کی تنظیم اے سی ایل یو نے ہفتے کے روز صدر کے حکم نامے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔اے سی ایل یو نے کہا کہ جج کے سٹے آرڈر سے ان لوگوں کی ملک بدری رک گئی ہے جو اس حکم نامے کی ‘زد’ میں آ گئے تھے۔تنظیم کا اندازہ ہے کہ ایک سو سے دو سو تک لوگوں کو ہوائی اڈوں پر روک دیا گیا تھا۔اس دوران سینکڑوں لوگوں نے مختلف امریکی ریاستوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن کے بارے میں حکم نامے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔اس حکم نامے کے تحت، جس پر انھوں نے جمعے کو دستخط کیے تھے، امریکہ کا پناہ گزینوں کا پروگرام معطل کر دیا گیا تھا اور عراق، ایران، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، اور یمن کے شہریوں کی امریکہ آمد پر 90 دن کی پابندی لگا دی تھی۔وہ لوگ جو اس دوران سفر کر رہے تھے، انھیں امریکہ آمد پر حراست میں لے لیا گیا تھا، چاہے ان کے پاس جائز ویزا اور دوسری دستاویزات ہی کیوں نہ ہوں۔جج این ڈونیلی کے فیصلے کے بعد ان لوگوں کی ملک بدری رک گئی ہے جن کے پاس پناہ گزینی کی منظور شدہ درخواستیں، منظور شدہ ویزا، یا امریکہ میں داخلے کے لیے درکار دوسری قانونی دستاویزات موجود تھیں۔امیگرینٹس کے حقوق کی تنظیم آئی آر پروجیکٹ کے ڈپٹی لیگل ڈائریکٹر نے کہا کہ عدالت کے باہر جمع ایک ہجوم نے نعرے لگا کر اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔انھوں نے کہا کہ خدشہ تھا کہ بعض لوگوں کو ہفتے کے روز جہاز میں بٹھا کر امریکہ بدر کر دیا جائے گا۔’مختصر الفاظ میں، جج نے بھانپ لیا کہ حکومت کیا کر رہی ہے اور جو ہم چاہتے تھے وہ ہمیں دے دیا۔ اور وہ تھا کہ ٹرمپ کے اس حکم کی معطلی اور حکومت کو اجازت نہ دینا کہ ملک بھر میں جو بھی اس حکم کی زد میں آیا ہے، اسے نکال باہر کر دیا جائے۔’انھوں نے ہجوم کو بتایا کہ جج نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ناموں کی فہرست فراہم کرے جنھیں حراست میں لیا گیا ہے۔’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہر شخص کو قانونی مدد فراہم کی جائے اور اسے حراست سے نکال لیا جائے۔ اسے واپس خطرے میں نہیں بھیجا جائے گا۔’عدالت نے مقدمے کے لیے فروری کے آخر کی تاریخ رکھی ہے واشنگٹن ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ سات مسلم ممالک پر ویزا پابندی کو تمام مسلمانوں پر پابندی قرار دینا مناسب نہیں، پاکستان، افغانستان، ترکی سمیت متعدد مسلم ملک پابندی سے متاثرنہیں۔ ا مریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ پناہ گزینوں یر پابندی کا اطلاق ان افراد پر بھی ہوگا جن کے پاس گرین کارڈز ہیں یا وہ امریکا میں مستقل رہائش کی قانونی حیثیت رکھتے ہیں ۔اہلکار نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے سات مسلم ممالک پر ویزا کی پابندی کا مطلب مسلمانوں پر پابندی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ جو ممالک اس ایگزیکٹو آرڈر میں شامل نہیں ان میں پاکستان، افغانستان، ملائشیا، اومان، تیونس اور ترکی شامل ہیں واشنگٹن امریکی محکمہ برائے داخلی سلامتی نے کہا ہے کہ ’’عدالتی فیصلے کی تعمیل کی جائے گی‘‘ مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ ایگزیکٹو حکم برقرار ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے سات ممالک کے لوگوں کی امریکا آمد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کی طرف سے یہ بیان نیویارک کی عدالت کے حکم کے بعد جاری کیا گیا۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’ان افراد کو معمول سے زیادہ سکیورٹی اسکریننگ سے گزارا جا رہا ہے اور ہمارے امیگریشن قوانین اور عدالتی فیصلے کے مطابق امریکا میں داخلہ دینے کے لیے ان کے کاغذات پر کام کیا جا رہا ہے واشنگٹن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمان مخالف ویزہ پالیسی کے خلاف دنیا بھر سے رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے پابندی کی صورت میں مداخلت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ ادھر ایران نے ان کے اقدامات کو توہین آمیز قرار دے کر جواب میں امریکی شہریوں پر بھی ملک میں داخلے پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے خبردار کیا ہے امریکا کے ان اقدامات سے خطرناک معاشی اور سیاسی نتائج نکل سکتے ہیں۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے تارکین وطن کو پناہ دینے کا اعلان کر دیا۔ امریکی اخبار نے ٹرمپ کے فیصلے کو بزدلانہ اور خطرناک کہا ہے۔ سات اسلامی ملکوں کے شہریوں پر امریکا میں پابندی پر داخلے سے دنیا کے مختلف ملکوں سے رد عمل آ رہا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے کہا ہے انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی سے شدید اختلاف ہے۔ ڈاؤننگ سٹریٹ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے برطانیہ تارکین وطن پر پابندی کی حمایت نہیں کرتا۔ دوسری جانب ایران نے ٹرمپ انتظامیہ کے پابندی کے فیصلے کو شرمناک قرار دیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق امریکا داخلے پر پابندی اسلامی دنیا اور خصوصاً ایرانیوں کیلئے توہین آمیز ہے۔ جواب میں تہران بھی امریکی شہریوں پر پابندی لگائے گا۔ ادھر فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے صدر ٹرمپ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ انہوں نے امریکی صدر سے تارکین وطن کو قبول کرنے کے اصولوں کے احترام کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کو فیصلے کے خطرناک معاشی اور سیاسی نتائج سے بھی خبردار کیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے تارکین وطن کو پناہ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں صدر ٹرمپ پر رنگ ونسل سے بالاتر ہو کر مساوی سلوک کرنے پر زور دیا ہے۔ ادھر امریکی میڈیا نے بھی صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کے شہریوں پر پابندی کے فیصلے کو بْزدلانہ اور خطرناک اقدام کہا ہے ۔