|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2017

کوئٹہ:پلی بارگینگ کے مکروہ دھندے کے ذریعے تمام نیب زدہ افراد نیب زادے بن گئے، چیئرمین نیب کے صوابدیدی اختیارات کو ختم کر کے سارے کرپٹ اور چور سیاستدانوں کو قوم جیل کے سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں، بلوچستان کرپٹ اور کمیشن خوروں کاگھنٹہ گھر بن چکا ہے، ان خیالات کا اظہار جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے مرکزی قائمقام امیر مولانا عبدالقادر لونی مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا خلیل احمد مخلص مرکزی پریس سیکرٹری حاجی سید عبدالستار شاہ چشتی ، زبیر انجم ایڈووکیٹ اور مولانا عبدالستار آزاد نے ایک مشترکہ بیان میں کیا، انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے صوابدیدی اختیارات ختم کر کے پلی بارگین کے مکروہ عمل کے ذریعے چھٹکارا پانے والوں کو دوبارہ گرفتار کر کے ان کیخلاف تحقیقات کرائی جائیں، انہوں نے کہا کہ پلی بارگینگ مکروہ عمل کے ذریعے تمام نیب زدہ عناصر نیب زادے بن گئے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کرپٹ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کا گھنٹہ گھر بن چکا ہے، صوبے میں ہرطرف اور ہر ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن کی انتہاء ہے، لیکن پلی بارگین کے سبب صوبے کے تمام کرپٹ عناصر نے چھٹکارا پالیا، لیکن نیب کی نااہلی کی وجہ سے پلی بارگین کے ذریعے وصول ہونے والا پیسہ آج دوبارہ کرپٹ صوبائی حکومت کے ذریعے خرچ ہورہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے چیئرمین کے پلی بارگین کے اختیارات کے ختم کرنے کے بل کو مسترد کرنا تعجب کن ہے، ایک جانب مختلف سیاستدان پلی بارگینگ کیخلاف میڈیا اور مختلف الیکٹرونک چیلنجز پر واویلا کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب پلی بارگینگ کیخلاف قانون سازی کے وقت سارے سیاستدان اپنے دعوؤں سے مکر جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کی پلی بارگینگ کے حوالے سے صوابدیدی اختیار کو فی الفور ختم کر کے ملکی خزانے کو لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور چیئرمین کے تقرر کا اختیار سپریم کورٹ کودی جائے تاکہ چیئرمین نیب کی تقرری میرٹ اور سیاسی مداخلت سے پاک بنادیں ، تاکہ نیب احتساب کے عمل کو بلا تفریق اور بلا سیاسی مداخلت کے جاری رکھ سکیں اور ملک وقوم کے غداروں کو عدالتی کٹہرے میں لا کر انہیں عبرت کا نشانہ بنایا جاسکیں، آخرمیں انہوں نے کہا کہ ہم نیب کے چیئرمین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پلی بارگین کے ذریعے3ارب روپے جووصول ہوئے تھے انہیں صوبائی حکومت کے حوالے نہ کریں بلکہ انہیں پرائیویٹ سیکٹرز کے ذریعے صوبے کے عوام کے فلاح وبہبود پر خرچ کی جائیں تاکہ مذکورہ پیسہ کرپشن اور خورد برد سے بچ جائے