|

وقتِ اشاعت :   February 1 – 2017

راولپنڈی:پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ حافظ سعید پر پابندی کے حوالے سے ریاستی اداروں نے فیصلہ کیاہے،حافظ سعید کی نظربندی پالیسی کے مطابق اور قومی مفاد میں ہے،قومی مفاد ہرچیز پرمقدم ہے،ڈ ان لیکس کے حوالے سے انکوائری ہورہی ہے،اس حوالے سے جلد رپورٹ آجائے گی،ملٹری کورٹس سے متعلق فیصلہ حکومت کرے گی ،بلاگرز کی گمشدگی سے پاک فوج کا کوئی تعلق نہیں اگروزیرداخلہ نے بلاگرزکے حوالے سے کچھ کہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کااشارہ انٹیلی جنس ایجنسیز کی طرف تھا،آرمی بھی ریاست کا حصہ ہے،بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے بارے میں فیصلہ ملکی قوانین کے مطابق ہوگا،کچھ قوتیں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر نہیں دیکھنا چاہتی،پاکستان اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا،کچھ قوتوں کا مقصد محض پاکستان کودہشتگردی کا موردالزام ٹھہراناہے،عناصر قومی یکجہتی پر قیاس آرائیاں کرکے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، بھارت ہمسایہ ملک ہے ،ہم کسی سے جنگ نہیں چاہتے، جنگ مسائل کا حل نہیں ہے،ہم تمام تصفیہ طلب مسائل بشمول کشمیر کا حل بات چیت اور امن کے ساتھ چاہتے ہیں مگر امن کی اس خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، بھارت کشمیر کے مسئلے کو پسِ پُشت ڈالنے اور کشمیریوں پر جاری بربریت سے دُنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے،سر جیکل سٹرائیک کا ڈرامہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔منگل کو راولپنڈی میں قومی سلامتی کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ حافظ سعید پر پابندی کے حوالے سے ریاستی اداروں نے فیصلہ کیاہے،حافظ سعید کی نظربندی پالیسی کے مطابق اور قومی مفاد میں ہے،قومی مفاد ہرچیز پرمقدم ہے،ہرادارے،ہرفرد نے اپنااپناکام کیاہے،ملک ترقی کرے گا تو باقی سب چیزیں بعد میں آتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ بلاگرز کی گمشدگی سے پاک فوج کا کوئی تعلق نہیں اگروزیرداخلہ نے بلاگرزکے حوالے سے کچھ کہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کااشارہ انٹیلی جنس ایجنسیز کی طرف تھا،آرمی بھی ریاست کا حصہ ہے،بھارت کولڈوار سٹارٹ کرے یا نہ کرے مہم جوئی پر منہ توڑ جواب دیا جائے گا،ہم جنگ نہیں چاہتے اگر جنگ مسلط کی گئی تو اس کاجواب دیا جائے گا،بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے بارے میں فیصلہ ملکی قوانین کے مطابق ہوگا،کلبھوشن یادیو سے متعلق حکومت پاکستان نے بھارت سے رابطہ کیاہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فوج ایک خاندان کی طرح ہے،جتنا خیال پاک فوج میں سپاہیوں کا رکھا جاتا ہے،اتنا کہیں نہیں رکھاجاتا،ڈان لیکس کے حوالے سے انکوائری ہورہی ہے،اس حوالے سے جلد رپورٹ آجائے گی۔انہوں نے کہاکہ پاکستان افغانستان میں بھی امن کا خواہاں ہے،ہم نے اپنی طرف کا کام کرناہے،انہوں نے اپنی طرف کا کام کرناہے،پاکستان افغانستان میں امن بحال ہونے میں جو بھی کرسکتاہے وہ کرے گا،کچھ قوتیں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر نہیں دیکھنا چاہتی،پاکستان اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا،کچھ قوتوں کا مقصد محض پاکستان کودہشتگردی کا موردالزام ٹھہراناہے،پاکستان کے امن کی خواہش کمزوری نہ سمجھا جائے،چندعناصر قومی یکجہتی پر قیاس آرائیاں کرکے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں،دہشتگردی کے خلاف موثر بیانیہ ترتیب دینے میں میڈیا اہم کرداراداکرے،وہی قوم جو کہتی تھی یہ ہماری جنگ نہیں آج وہ افواج پاکستان اور اداروں کے ساتھ ہے،اس میں میڈیا کا اہم کردارہے،آئینی طور پر قائم فوجی عدالتوں نے اپنا پوراکام کیا۔ملٹری کورٹس سے متعلق فیصلہ حکومت کرے گی ۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ 2008-09میں دہشت گردوں کی ذد سے ملک کا کوئی حصہ محفوظ نہیں تھا ۔ دہشت گرد پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں بالخصوص شمالی وزیر ستان سے ملک کے ہر حصے میں کارروائیاں کر رہے تھے۔ ایک مفصل منصوبے کے تحت ہم نے دہشت گردوں کے بلا امتیاز خاتمے کا جو عمل 2008میں باجوڑ سے شروع کیا تھا، وہ بعد میں مہمند ، سوات، جنوبی وزیر ستان، خیبر ، کُرم اورکزئی سے ہو تا ہوا اپنے آخری مرحلہ میں آپریشن ضرب عضب کی صورتNWA تک پہنچا۔ ان تمام مراحل میں ہم نے بحیثیت قوم اپنے ملک کو اس ناسور سے نجات دلانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔ اس جنگ میں ہم نے مجموعی طور پر 70,920 پاکستانی خون کی قربانیاں دی ہیں ۔ جس میں 21,839 شہید اور 49,081زخمی شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملکوں کی آزادی اور خودمختاری قربانیاں مانگتی ہے اور ہمیں ان قربانیوں پر فخر ہے ۔انہوں نے کہا کہ ضرب عضب میں بنیادی طور پر NWAاور خیبر ایجنسی میں آپریشن کیے گئے جبکہ ملک کے باقی تمام حصو ں میںIBOsاورCombing Opsکیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب کے آغاز سے اب تک ہمارے بہادر جوانوں نے پورے ملک میں26000سے زائد IBOsاور کومبنگ آپریشن کر کے ملک میں امن وامان کی صورتحال بہتر کی ہے ۔ قبائلی علاقے اور خیبر پختونخواہ سمیت پاکستان کے وہ علاقے جہاں شدت پسندی عروج پرتھی اب وہاں کیڈٹ کالجوں، ہسپتالوں اور شاہراہوں کی تعمیر کی صورت میں ایک پرامن پاکستان دکھائی دیتا ہے ۔ آپریشن کے نتیجے میں عارضی طور پر بے گھر ہونے والے تقریباََ84فیصد افراد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں اور باقی افراد کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ آپریشن کے دوران ہمارے پشتون بھائیوں کی قربانیاں اور افواجِ پاکستان کا مکمل ساتھ ہماری اس اجتماعی کامیابی کا سب سے اہم ستون ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ قبائلی علاقوں کے ہمارے وہ بھائی جو آپریشن کی وجہ سے عارضی طور پر افغانستان اپنے عزیزواقارب کے پاس چلے گئے تھے ۔ وہ حالات بہتر ہونے پر واپس آنا شروع ہو گئے ہیں ۔پاکستان اُن کی واپسی کے عمل کو آسان بنا رہا ہے ۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن بحال ہو تاکہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین بھی سے اپنے وطن واپس جا سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ ضرب عضب کی کامیابیوں سے پاک افغان بارڈر پر سیکیورٹی صورتحال میں بہتری آئی ہے جس سے یقیناًافغانستان کو بھی فوائد حاصل ہونگے۔بارڈر مینجمنٹ میں بہتری کے حوالے سے ہمار ی طرف سے کافی کام کیا گیا ہے جس میں بارڈر پوسٹوں اور کراسنگ پوائنٹس کا نظام اور FCکے 29نئے ونگ کا قیام شامل ہے۔ہمیں امید ہے افغانستان بھی اس حوالے سے مزید اقدامات کر ے گا ۔انہوں نے کہا کہ امن و عامہ کے حوالے سے بلوچستان میں بہتری آئی ہے ۔ ایف سی ، صوبائی LEAs اور فوج کی محنتیں رنگ لارہی ہیں ۔ RAWاور NDSکی پشت پناہی کے ساتھ دہشت گردجو کارروائیاں کر رہے تھے اس کو بہتر انداز میں چیک کیا جارہا ہے ۔ اب تک بلوچستان میں تقریباََ 3000 انٹیلی جنس بیسڈآپریشنز کئے جاچکے ہیں ۔ 2016 میں امن کی بحالی کے لئے آرمی، FCاور پولیس کے 189جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جبکہ376 پاکستان شہری شہید ہوئے۔ صوبے میں امن وامان کی بہتر ہوتی صورت حال کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کام بھی جاری ہیں ۔ CPEC اور گوادر پورٹ بلوچستان کے روشن مستقبل کی نوید ہیں۔FWO نے بلوچستان میں870کلو میٹر لمبی سڑکوں کا جال پھیلا دیا ہے جوکہ FWOکے جوانوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کامیابی کے اس سفر میں ہمارے بلوچ بھائیوں کا تعاون اور قربانیاں قابل قدر پہلو ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دو سالوں میں رینجرز کے آپریشن کی بدولت کراچی کے حالات تبدیل ہو چکے ہیں ۔ دہشت گردی ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں90% تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم کراچی میں سٹریٹ کرائمز ابھی جاری ہیں ، اس سلسلے میں رینجرز، سندھ پولیس اور دیگر قانون نافذ کر نے والے ادارے کرا چی کے شہریوں کے تعاون سے اپنا کام جاری رکھیں گے اور انشاء اللہ کامیاب ہونگے ۔ اب تک کراچی میں8840آپریشنز کئے جاچکے ہیں ۔ اس دوران رینجرز کے 33 اہلکار شہیداور100سے زائد زخمی ہوئے۔رینجرز کے ساتھ ساتھ سندھ پولیس اور سول انتظامیہ نے بھی اس آپریشن میں قابل تحسین کردار ادا کیاہے۔دہشت گردی کے خلاف کامیابی تینوں مسلح افوا ج کے درمیان بے مثالCooperationکا نتیجہ ہے ۔ پاک فضائیہ آپریشن کے ہر مرحلے میں پاک فوج کے شانہ بشانہ رہی ۔ جبکہ پاکستان نیوی نے ساحلوں اور ملحقہ علاقوں میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سے انجام دیں۔ مسلح افواج کا باہمی ربط اور پاکستانی قوم کا اپنی مسلح افواج پر بھرپور اعتماد ہمارا قیمتی اثاثہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ واضح رہے کہ ہماری یہ جنگ ابھی جاری ہے ۔ہمیں اس کامیابی کو دائمی نتائج اور امن کی طرف لے کر جانا ہے۔ IBOsاورCombing Opsجاری رہیں گے تاکہ بچے کھچے دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کا صفایا کیا جاسکے ۔جب تک عوام ہمارے ساتھ ہیں اللہ کے فضل و کرم سے ہم کسی بھی خطرے کا کامیابی سے مقابلہ کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے ۔ ہم کسی سے جنگ نہیں چاہتے ۔ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے ۔ ہم تمام تصفیہ طلب مسائل بشمول کشمیر کا حل بات چیت اور امن کے ساتھ چاہتے ہیں ۔ مگر امن کی اس خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سال میں LOCاورWBپر مجموعی طور پر 945 سیز فائر Violations کی گئیں۔ صرف پچھلے چار ماہ میں 314خلاف ورزیاں ہوئیں۔ جس کے نتیجے میں 46پاکستانی شہری شہید ہو چکے ہیں۔ جوابی کارروائی سے 40بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے ۔ بھارت کشمیر کے مسئلے کو پسِ پُشت ڈالنے اور کشمیریوں پر جاری بربریت سے دُنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سر جیکل سٹرائیک کا ڈرامہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔انہوں نے کہا کہ انڈین آرمی چیف کا کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرین سے متعلق تازہ بیان ہمارے خدشات کی تصدیق کر تا ہے ۔ ماضی میں انڈیا اس ڈاکٹرین کی حقیقت سے مکمل طور پر انکاری رہا ہے۔ ہمارا موقف تھا کہ بھارت یہ Capabilityحاصل کر رہا ہے اور Intentionsکسی وقت بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اب بھارتی چیف نے نہ صرف اس pability Ca کی تصدیق کی ہے بلکہ اس کو مزید Intesify کرنے کا عندیہ دے کر اپنی Intentionsبھی ظاہر کی ہیں جس سے پاکستان کے ماضی میں کئے گئے خدشات کی تصدیق ہوئی ہے۔ پاک فوج دنیا کی واحد فوج ہے جو دو محاذوں پر کامیابی سے برسرِ پیکار ہے ۔انہوں نے کہا کہ مشرقی طرف WB/LOCپر بھارت کی جارحیت کے خلاف بھرپورمقابلہ اور اندرونی محاذ بشمول مغربی سرحد پر دہشتگردوں کی بھرپور سرکوبی۔ دونوں محاذوں پر کامیابی سے ملک کا دفاع کیا جا رہا ہے۔ اب بھارت کی یہ کوشش، دہشت گردوں کے خلاف سے پاکستان کی توجہ ہٹانے کے لئے مرکوز ہے۔انہوں نے کہا کہ جیسے کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہم مسائل کا پرامن حل چاہتے ہیں ۔ مگر عزت اور وقار پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے ۔ پاکستان انشاء اللہ اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے تمام اقدامات کر ے گا اور ہم اپنی اندرونی و بیرونی سرحدوں کی پوری حفاظت کریں گے ۔پاکستان نے حالیہ دنوں میں بابر3میزائل اور ابابیل کا کامیاب تجربہ کیا ہے جو کہ پاکستان کے مضبوط دفاع کا آئینہ دار ہے ۔ افواجِ پاکستان اور عوام بھارت کی کسی بھی قسم کی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لئے اہل بھی ہیں اور مکمل طور پر تیار بھی ہیں ۔ کسی بھی طرح کے Misadventureکا بھر پور جواب دیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان سمیت خطے میں بدلتی صورتحال پر نظر رکھے ہو ئے ہیں۔ افغانستان کی عوام اور افواج نے بھی دہشت گرد ی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی ہے ۔ افغانستان اور پاکستان برادرہمسایہ ممالک ہیں ۔ہمیں افغانستان کی صورتحال پر تشویش ہے اور ہم دہشت گردی کی اس جنگ میں اپنے افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ دہشت گردی ملک اور مذہب سے بالاتر ہے اور ہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے ۔ تاہم کچھ قوتوں کا مقصد پاکستان کو ہر صورت موردِ الزام ٹھہرانا ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا اور افغانستان کے سنجیدہ حلقے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان ، افغانستان کے اندر ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف موئژ آپریشنز کے ذریعے FATAمیں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے اور زیادہ تر دہشت گرد مارے گئے جبکہ باقی دہشت گرد افغانستان کی طرف اُن کی فوج کی غیر موجودگی کی وجہ سے افغانستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل ہو چکے ہیں ۔TTPکی قیادت عرصہ دراز سے افغانستان میں پناہ گزین ہے ۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے افغان قیادت سے فون پر بات کر کے حالیہ دھماکوں کی شدید مذمت کی اور قیمتی جانوں کے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ۔ آرمی چیف نے واضح الفاظ میں اپنے عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور افغانستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔ آرمی چیف نے ایک موثر Bilateral Border ManagementاورIntelligence Sharingکی بھی تجویز دی ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس سلسلے میں مثبت جواب دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بار ہا اس بات کا اعادہ کیا ہے ۔کہ ہم اپنی سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ پاک فوج 15 مارچ سے قومی مردم شماری ،خانہ شماری کے عمل کی مدد کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں تمام پلاننگ مکمل کر لی گئی ۔لاکھ جوان اس کام میں حصہ لیں گے۔ پاک فوج اس عمل کے دوران اپنے دیگر آپریشنل فرائض انجام دیتی رہے گی۔ ملکی سلامتی کا انحصار مسلح افواج کی بہادری ، جذبہ حب الوطنی اور پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی اور آئینی و جمہوری نظام کی مضبوطی میں ہے ۔ ہمارا یقین ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اپنے اپنے مورچے کا سپاہی ہے ۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ چند عناصر بے یقینی اور عدم استحکام کا تاثر دے کر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا نے کی کوشش کرتے ہیں۔ حساس معاملات پر قیاس آرائیاں ریاستی اداروں کے درمیان فاصلے پیدا کر سکتی ہیں۔ ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا دفاع سلامتی ، ترقی و خوشحالی ، ہمارے باہمی اتفاق اور تمام ریاستی اداروں کی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ہم دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور ترقی اور خوشحالی جیسے بڑے قومی مقاصد کے لیے متحد رہے تو ہی وطن عزیز ترقی کر ے گا۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کو متحد کر نے اور دہشت گردوں کے Narrativesکو رد کرانے میں میڈیا کے کردار کو سراہتے ہیں۔ میڈیا کے ذمہ دار حلقوں اور تنظیموں ؂ کو چاہیے کہ وہ غیر ذمہ دارانہ عناصر کی حوصلہ شکنی کریں ۔ پاک فوج کا یہ عزم ہے کہ قومی مفاد کو ہر چیز پر ترجیح دی جائے گی اور ریاست کے تمام اداروں کو ملکی مفاد کے حصول کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے چھٹی مردم شماری و خانہ شماری میں آرمی سپورٹ پلان کی منظوری دے دی۔ 2 لاکھ فوجی اس مردم شماری کا حصہ ہونگے۔ اس دوران فوج اپنی دیگر آپریشنل ذمہ داریاں سر انجام دیتی رہیں گی۔