کوئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان نے سیاسی جماعت کے سربراہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں کوئی مطمئن نہیں تو خیبرپختونخواء میں شامل ہونے کیلئے صوبائی اسمبلی میں قرارداد لائی جائے اس وقت صوبائی اسمبلی میں ان کی اور اتحادی کی اکثریت ہے جب گورنر اور وزیراعلی ان کی مشاورت سے لائے اور تبدیل کئے جاتے ہیں وزیراعظم کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں وہاں سے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے خیبرپختونخواء میں شامل ہوں ہمیں کوئی اعتراض نہیں موجودہ حکمران چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو بھی حکمران انہی کے کہنے پر بلوچستان کی آبادی میں شامل کرنے کی کوشش میں معاونت کر رہے ہیں تاریخ کو توڑ مروڑ کر اور حقائق کو مسخ کرنا ممکن نہیں بلوچستان اور بلوچ سرزمین کی ہزارہا سال پرانی تاریخ ، تہذیب و تمدن ہے لغوی بیانات سے تاریخ کو مسخ نہیں کیا جا سکتا بلوچ ایک قوم ہے اس کی تین بڑی زبانیں ، بلوچی ، براہوئی اور کھیترانی ہیں انہیں الگ کر کے اعدادی برتری حاصل کرنے کی گھناؤنی سازش کو بخوبی سمجھتے ہیں بلوچستان کے 6ڈویژنز میں صر ف ڈیڑھ ڈویژن کی آبادی کو اکثریت کہنا مضحکہ خیز ہے جب سردار اخترجان مینگل وزیراعلی تھے 1998ء میں جب مردم شماری کرائی گئی تو اس وقت بلوچستان کے حالات بہتر اور لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین نے ملکی شہریت حاصل نہیں کی تھی آج کڈوال کہنے والے ماضی میں انہیں کن ناموں سے یاد کرتے تھے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں 1907ء تو کل کی بات ہے 1730ء میں خان قلات نے کوئٹہ کو شمالی دارالحکومت کا درجہ دیا 1876ء میں خان آف قلات کے ساتھ رابرٹ سنڈیمن نے کوئٹہ چھاؤنی اور کوئٹہ ریس کورس کا معاہدہ کر کے اس کا انتظام سنبھالا جو بعد میں برطانوی چھاؤنی کی شکل اختیار کر گیا 1839کے جنگ میں انگریز کوئٹہ پر قابض ہوئے بلوچ خان سے ریلوے اسٹیشن ، کوئٹہ چھاؤنی سمیت دیگر معاہدے کئے کسی افغان سے نہیں کوئٹہ بلوچ سرزمین کا اٹوٹ انگ ہے موصوف اس سے قبل بھی صوبہ خیبرپختونخواء سمیت آدھے ملک کو افغانستان کا حصہ قرار دے چکے ہیں خواہشات کی بنیاد پر سرزمینیں حاصل نہیں کی جاسکتیں ہم بلوچ پشتون کے مابین نفرتیں پیدا نہیں کرنا نہیں چاہتے کیونکہ ہم برادر اقوام یہاں زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن تاریخ کو مسخ کرنے نہیں دیا جائیگا کیونکہ سرزمین بلوچستان ہمارے آباؤ اجداد کا مسکن رہا ہے جنہوں نے جواں مردی سے ہر سامراج کا مقابلہ کر کے وطن کی بقاء اور سرزمین کی حفاظت کی سرزمین ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دی لاکھوں بلوچ شہداء اور غازیوں کی امانت ہے اس کی حفاظت و بقاء قومی ذمہ داری ہے کسی قسم کی توسیع پسندی کو برداشت نہیں کرتے بولان تا چترال کی بات کرنے والے یہ تو بتائیں کہ بولان میں کتنے قندھاری آباد ہیں کوئٹہ کی قدیم تاریخی کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر زمینیں بلوچ قبائل کی ملکیت ہیں 1931ء کی مردم شماری میں بلوچ آبادی62فیصد ، پشتون آباد22فیصد ، دیگر آبادی14فیصد، 1951ء کی مردم شماری میں بلوچ آبادی67فیصد ، پشتون آباد23فیصد ، دیگر آبادی9فیصد،1961ء کی مردم شماری میں بلوچ آبادی65فیصد ، پشتون آباد24فیصد ، دیگر آبادی10فیصد،1972ء کی مردم شماری میں بلوچ آبادی64فیصد ، پشتون آباد25فیصد ، دیگر آبادی10فیصد،1981ء کی مردم شماری میں بلوچ آبادی65فیصد ، پشتون آباد26فیصد ، دیگر آبادی8فیصد،1998ء کی مردم شماری میں بلوچ آبادی65فیصد ، پشتون آباد28فیصد ، دیگر آبادی6فیصدرہی حالیہ سروے کے مطابق ملک کی آبادی 46فیصد اور بلوچستان کی آبادی139فیصد بڑھ چکی ہے خاص کر کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ میں جہاں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہے جہاں آبادی میں اضافے کا تناسب447فیصد ہے اتنی آبادی دنیا کے کسی ملک میں نہیں بڑھی جتنی کہ کوئٹہ اور پشتون علاقوں میں افغان مہاجرین کی وجہ سے بڑھی یہ تمام حقائق پر مبنی ہیں جن کی رپورٹ2011ء کے سروے کے بعد سیکرٹری شماریات نے جاری کی تھیں جو مصدقہ ہیں ترجمان نے کہا کہ ریاستی ادارے بھی رپورٹ دے چکے ہیں کہ افغان مہاجرین نے لاکھوں کی تعداد میں ملکی شہریت حاصل کر لی ہے طالبان سربراہ کو بھی قلعہ عبداللہ سے ملکی شہریت دی گئی ان حالات میں کیسے صاف شفاف مردم شماری بلوچستان میں ہو سکے گی ایسے بیانات دینے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جعلی حکمران جعلی مردم شماری کرانے کے خواہاں ہیں ترجمان نے کہا کہ افغان ثور انقلاب کے وقت ڈاکٹر نجیب کی خوشنودی کی خاطر انہی افغان مہاجرین کو وہاں کی قوم پرست حکومت کے دشمن اور ثور انقلاب کی کامیابی کیخلاف رکاوٹ سمجھا جاتا ہے لیکن آج اپنے گروہی مفادات کی خاطر اب ان کی حمایت کی جا رہی ہے تاکہ بلوچ اکثریتی آبادی کو ان کے ذریعے کم کیا جا سکے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو ملکی شہریت دے کر مردم شماری میں شامل کیا جائے ملکی اور بین الاقوامی قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ یہاں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے ترجمان نے کہا کہ ہم مردم شماری کے مخالف نہیں لیکن ہمارے حقائق پر مبنی خدشات و تحفظات ہیں ان کو دور کئے بغیر مردم شماری صاف شفاف ہو ہی نہیں سکتی جب چالیس لاکھ افغان مہاجرین جو کیمپوں میں نہیں شہروں میں آباد ہیں ان کو کیسے مردم شماری سے دور رکھا جا سکتا ہے کیا آئین اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو خانہ شماری مردم شماری میں شامل کیا جائے کیا یہ درست اقدام ہوگا ترجمان نے کہا کہ پنجاب کے حکمران ان کے ساتھ اتحادی ہیں اور قریبی روابط اور سچی وابستگی ہیں اگر وہ چاہیں تو انہیں لاہور ، سیالکوٹ اور چیچہ وطنی میں آباد کر کے مردم شماری کرائیں ان کی آبادی کروڑوں میں ہے وہاں ان کے آبادی سے اثر بھی نہیں پڑے گا حکمرانوں بلوچوں کے زخموں پر اس طریقے سے مرہم رکھ رہے ہیں جو کہتے تھے کہ وہ ہم بلوچ بھائیوں کے مسائل حل کریں گے اب تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ چالیس لاکھ افغانی انہیں قبول اور بلوچ قبول نہیں ہے کیا اس طریقے سے قومی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے بلوچ کو اس سے قبل تو ہماری نسل کشی کی جاتی تھی اب تو ہمیں اپنی ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے کیا یہ بلوچ دشمن اقدامات نہیں حکمران کچھ کے اتحادیوں کی خوشنودی کیلئے کر رہے ہیں خود اپنی ہی ملک کے آئین کی دھجیاں اڑانے سے بھی قاصر نہیں ترجمان نے کہا کہ جنرل مشرف کے آپریشن کے بعد کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، کوہستان ، مکران ، جھالاوان ، آواران سمیت دیگر علاقوں سے لاکھوں بلوچ دوسرے صوبوں میں منتقل ہو چکے ہیں کیا ان کو شمار نہ کرناان کے حقوق کی حق تلفی نہیں ہو گی ایک جانب ملکی آئین انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے لیکن دوسری جانب حکمران جو کر رہے ہیں تمام خدشات و تحفظات کے باوجود دانستہ طور پر سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں تمام حقائق کو باوجود حکمران ٹھس سے مس نہیں ہو رہے ہیں ترجمان نے کہا کہ حکمران اپنے اتحادیوں کی خوشنودی کی خاطر بلوچوں کے ساتھ زیادتیوں پر اتر آئے ہیں قوموں کو نیست و نابود کرنے کی ماضی کی پالیسیاں جاری دکھائی دیتی ہیں ان مسائل کے باوجود موجودہ جعلی حکمران جعلی مردم شماری کرانے کے شوق پورا بھی کر لیں وہ قبول نہیں نہ ان کی کوئی حیثیت ہوگی بارہا کہہ چکے ہیں درج بالا مسائل حل کئے جائیں مردم شماری وقت و حالات کی ضرورت ہے 1931سے اب تک جب بھی مردم شماری کرائی گئی اس کو صرف جذباتی بیانات ، مرضی و منشاء کے مطابق منشیوں سے تعبیر کرنا سیاسی سنجیدگی نہیں اکثریتی آبادی کو اس طریقے سے کم نہیں کیا جا سکتا بلوچ وطن کی سیاسی و جغرافیائی اہمیت کی حامل سرزمین ، تیل و گیس ، قدرتی وسائل ، ساحل مال غنیمت نہیں کہ جو غیر ملکیوں مہاجرین کیلئے استعمال کیا جائے ۔