کوئٹہ:پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا کہ افغانستان کے ہمسائے اگر وہاں پر امن کے قیام کا صحیح ارادہ کریں تو وہاں پر امن ضرورقائم ہو گا امریکہ افغانستان میں بیٹھا ہے یہ ہمارے لئے بھی نیک شگون نہیں اور ان کے بھی ہم پر شکوک وشبہات ہیں ہمیں کسی صورت جنگ کی طرف نہیں جانا چا ہئے اگر خدانخواستہ ہم نے جنگ کے شعلوں کو ہوا دی تو پھر یہاں دنیا کی بڑی قوتیں آئیں گی اور ہماری زمین امریکہ، چین، اسرائیل، ہندوستان، روس اور دنیا کے بڑے ممالک کی تجربہ گاہ بن جائے گا پشتون عوام مردم شماری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ ایک بات ہم نے بار بار کہی کہ پاکستان پر دو مرتبہ بہت خطرناک وقت آیا ایک مرتبہ1965 میں جب انڈیا اور پاکستان کا جھگڑا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے تو افغان صدر محمد ظاہر شاہ خان کی جانب سے انہیں تسلی دی گئی کہ ہمارے سرحد کی طرف سے بے فکر رہیں دوسری مرتبہ 1971 میں جب ملک دولخت ہو رہا تھا تو بھی بڑی خطرناک حالت تھی افغانستان اس وقت بھی اگر کچھ چاہتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا لیکن انہوں نے پیغام دیا کہ ہماری جانب سے بے فکر رہیں ہم کسی قیمت پر آپ کو آگ میں دھکیلنے نہیں دیں گے بہ ہر صورت ا ب افغانستان کے ساتھ امن کی راہ ہموار کرنی چاہئے افغانستان کا صرف ایک سوال ہے وہ یہ کہ میرے ہمسائے ہمیں (ساورن اسٹیٹ )آزاد خودمختار مملکت تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟ اور یہ ان کا حق بھی ہے کہ اپنے ہمسایوں سے اپنی خود مختاری اور آزادی تسلیم کرائے اگر ہم افغانستان میں امن کیلئے اقدامات نہیں اٹھائینگے تو سی پیک اور ترقیاتی کاموں کا ہونا بھی مشکل ہو گا افغانستان کے ساتھ دوستی ضرور ی ہے ہمارے وزیراعظم محمد نواز شریف افغانستان سے دوستی کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں ہم نے ملک کے تمام سیاسی جماعتوں کے سر براہوں کیساتھ اس سلسلے میں بات چیت کی ہے اگر کہیں ارادہ ہو تو وہاں پر راستے ہیں افغانستان کا ہم سب پر بڑا حق بنتا ہے وہاں پر لو گوں نے دنیا جہاں کے خطرناک اسلحے لا کر انہیں برباد کیا اب اس حالات میں ہمیں کہنا چا ہئے تھا کہ افغانستان کی تباہی وبربادی کے ذمہ دار روس اور امریکہ ہیں اس وقت تک تو افغانستان میں جنگ جائز تھی جب سویت یونین کی فوجیں آئیں تھی اور دنیا نے ان کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس جنگ میں کوئی بھی غیر جانبدار نہیں رہا دنیا جہاں کے خطرناک اسلحے لائے گئے اور ہمارے وطن میں استعمال کئے لاکھوں انسان شہید ہوئے لاکھوں معیوب ہو گئے روس نکل پڑا افغانوں نے سر وں کے نذرانے پیش کئے اور امریکہ اور دیگر دنیا ایک زخمی افغانستان کو بے یار ومددگار چھوڑ کر دوسری طرف نکل پڑے جب روسی نکل پڑے تو پوری دنیا کی ذمہ داری بنتی تھی کہ افغانستان کی تعمیر نو میں مدد کر تے اور آج بھی ان تمام ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے جنہوں نے افغانستان کی بربادی میں کسی نہ کسی شکل میں مدد کی تھی انہیں چاہئے کہ افغانستان میں اداروں کے استحکام اور ترقی میں مدد کرے ۔انسانی تاریخ میں33 سالہ لمبی جنگ نہیں لڑی گئی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے افغانوں کا غم ہمارا شریک غم ہے بلکہ اس خطے کا غم ہے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کئی سالوں پہلے کہہ چکے ہیں کہ ایشیاء مٹی وپانی کا گھروندہ ہے اور اس کا دل افغانستان ہے اگر دل پرامن، چین اور قرار سے رہے گا تو پورا جسم پرامن ہو گا اور اگر دل کو قرار نہیں تو پوری جسم بے چین ہو گی ۔افغانستان کے ہمسائے اگر وہاں پر امن کے قیام کا صحیح ارادہ کریں تو وہاں پر امن ضرورقائم ہو گا امریکہ افغانستان میں بیٹھا ہے یہ ہمارے لئے بھی نیک شگون نہیں اور ان کے بھی ہم پر شکوک وشبہات ہیں ہمیں کسی صورت جنگ کی طرف نہیں جانا چا ہئے اگر خدانخواستہ ہم نے جنگ کے شعلوں کو ہوا دی تو پھر یہاں دنیا کی بڑی قوتیں آئیں گی اور ہماری زمین امریکہ، چین، اسرائیل، ہندوستان، روس اور دنیا کے بڑے ممالک کی تجربہ گان بن جائے گی سائیریا اور ترکی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں انقرہ میں دھماکے ہو رہے ہیں اگر اب بھی ہم نے غلطی کو تو پھر دوسرے لوگ آکر ہمارے فیصلے کریں گے ہم کسی کو بھی یہ اختیار نہیں دیں گے کہ وہ جنگ کی طرف لپکے ہم جنگ نہیں چاہتے کسی کے ساتھ بھی۔ تقسیم آنی تھی تو پھر اس بات پرہو گی کہ کون جنگ کے حامی ہیں ااور کون امن کے پشتونخواملی عوامی پارٹی امن کے حامیوں کا ساتھ دے گی دنیا نے بہت خطرناک کھیل کا آغاز کیا ہے افغانوں پر مسلط جنگ میراتھن جنگ ہے جو نہ ختم ہونیوالی ہے پشتون اگر قاتل اور دہشت گرد ہے تو ٹھیک ہے انہیں قتل کرو اگر گناہ گار ہے سزا دو لیکن اگر پشتون اپنے وطن اپنے بچوں اور اپنی مٹی کیلئے سیالی اور برابری چا ہتا ہے اور اس بات پر آپ انہیں مارنا چاہتے ہوں تو جو بھی ہمیں مارے گا ہم موت کیلئے تیا رہیں اس زمین، مٹی، دھرتی کو ہم نے سروں کی قربانی دے کر پالا ہے دوسرے لوگوں نے ہمیں دو ملکوں میں تقسیم کیا ہے پاکستان اور افغانستان اب ہمیں لو گوں نے یہ گارنٹی دینی ہو گی کہ ہم ایک جمہوری فیڈریشن آف پاکستان جس میں ایک پشتون، پنجابی، بلوچ، سندھی، سرائیکی کے برابر ہو گا اور دوسری یہ گارنٹی دینی ہو گی کہ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار مملکت ہو گی وہاں پر لوگ مداخلت نہیں کر ینگے سوئٹزر لینڈ میں فرانسیسی، جرمن، اٹلی کے لوگ رہتے ہیں اور ان ممالک کے بارڈرز سوئٹزر لینڈ کیساتھ ہیں لیکن سوئٹزر لینڈ کے لوگ آزاد ریاست چلا رہے ہیں اگر پانچ سال تک افغانستان کے ساتھ معاملات پر امن اور صحیح طریقے سے چلائینگے تو پھر پنجابی کا بل میں پھریں گے اور اب بھی پاکستان کی بہترین منڈی افغانستان ہے وہاں پر پاکستانی سکہ چل رہا تھا لیکن ہم نے معمولی سی بات پر بولدک اور تورخم بارڈر کو بند کر دیا جس کا فائدہ ہندوستان نے اٹھایا ہندوستان، چین ، ایران ، افغانستان سب ہمارے ہمسائے ہیں سب کے ساتھ اچھے تعلقات بنا نے چاہیں چین اور بھارت نے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کے باوجود آج بہترین تجارت کر رہے ہیں اور اچھے تعلقات ہیں ہمیں یورپ سے سیکھنا چا ہئے انہوں نے لاکھوں کی تعداد میں ایک دوسرے کو مارا لیکن آج ایک دوسرے کے دوست ہیں افغانوں کی ایک نسل یہاں پیدا ہو کر جوان ہو چکی ہے اور بہترین اردو بول سکتے ہیں انہیں شہریت دینی چاہئے ۔ہم نہ کسی سے خیرات چاہتے ہیں اور نہ ہی زکواۃ ہمیں پرامن چھوڑا جائے ۔