|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2017

کوئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام مادری زبانوں کے عالمی دن اورشہداء جیونی کے موقع پر بلوچستان سمیت سندھ دیگرعلاقوں میں منایا گیا جبکہ مرکزی سطح پر گوہرآباد کوئٹہ میں جلسہ عام منعقد ہواجس کی صدارت شہداء جیونی کی تصاویرجبکہ مہمان خاص بی این پی کے مرکزی ہیومین سیکریٹری موسیٰ بلوچ جبکہ اعزازی مہمان ضلعی جنرل سیکرٹری وممبرمرکزی کمیٹی غلام نبی مری جاوید بلوچ و دیگر تھے جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک اور شہداء کی یاد میں خاموشی سے ہو جس خطاب کرتے ہوئے مرکزی رہنماء و ہیومن سیکریٹری موسی بلوچ غلام نبی مری جاوید بلوچ یونس بلوچ میر غلام رسول مینگل ملک محی الدین لہڑی ڈاکٹر علی احمد قمبرانی لقمان کاکڑملک ابراہیم شاہوانی آغا خالد شاہ دلسوزحاجی ابراہیم پرکانی میر قاسم پرکانی ہدایت اللہ جتک جان محمد مینگل جاوید جھلاوان ملک محمد حسن مینگل شوکت بلوچ علی احمد پرکانی ظفر نیچاری نے کہا کہ قوموں کی تاریخی ارتقائی عمل میں کسی قوم کی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں جو اقوام نے اپنی قومی مادری زبان کو ذریعہ شعور وعمل بنایا وہ کامیابی اور جدید دنیا سے ہم آہنگ ہوکر ترقی کے سفر کو چھو لیا دنیا میں کم وبیش چھ ہزارزبان بولی جاتی ہے جن میں سے آدھے زبان ختم یاتاریخ کا حصہ بن جائینگے کیونکہ مادری زبانوں کے حوالے سے بلوچستان میں سرکاری سطح پرکوئی سرپرستی نہیں کی جارہی ہے جبکہ بلوچستان میں مادری زبانوں پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں مادری زبانوں پر دیگر زبانوں کو عاوی کی جارہی ہیلیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی سماج وقوم کی ترقی میں بنیادی کردار شعور سے وابستہ ہے لیکن بلووچستان کی تعلیمی سلیبس میں مادری زبانوں کواعلان کی تک رائج کیا گیا ہے لیکن تین سال کے طویل عرصے میں کتب وغیرہ تاحال اسکول اورطلباء سے دور ہے جبکہ ہماری زبانون میں دیگر زبانوں کے الفاظ بھی داخل ہوچکے ہیں جس ہماری مادری زبانوں کی اصل الفاظ کم یا ختم ہورہے بلوچستان میں مادری زبانوں کے حوالے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی توہماری مادری زبانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ کسی بھی قوم کی بقاء شناخت کے لئے زبان بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر قوم شناخت ثقافت بھی اپنا اثر اور وجود کھو دیتے ہیں ابتداء سے ہمارا مطالبہ رہا ہے کہ بلوچستان میں مادری زبانوں کو نصاب کا حصہ بناکر تحقیقی تخلیقی مواد سے لیس جدید سائینٹیفک انداز میں بڑھنے کا موقع دیا جائے لیکن اس پر عدم توجہی قابل مذمت ہے جو استحصالی پالیسیوں کا حصہ ہے اکیسویں صدی میں بلوچستان کے عوام انسانی بنیادی حقوق سے محروم ہیں حقوق کی پاداش میں شہادت کے عمل کو بلوچ قوم کا مقدر بنا دیا گیا ہے مادری زبان کے عالمی دن کے ساتھ بلوچ قوم شہداء جیونی کی سیاہ دن کو بھی یاد کرکے بلوچستان کے ساتھ جاری جبر کے خلاف بلوچ قومی شعوری بنیادوں پرنبرد آزما ہے جب نہتے خواتین اور بچوں پر پانی کی عدم فراہمی پر احتجاج کرنے والے عوام پر اشتعال انگیز فائرنگ کرکے معصوم یاسمین بلوچ سمیت خواتین و بچوں کو شہید کیا گیاجو بلوچستان کے ساتھ جاری تلخ حقیقت کا حصہ ہے کہ بلوچتسان کو ہمیشہ ست طاقتور قوتوں کی شہہ پر قومی حقوق سے محروم رکھا گیا ہیسی پیک پر اربوں ڈالر پنجاب کی سڑکوں اور اسکیمات پر لگائی جا چکی ہے لیکن جو سی پیک بنیادی طور پر گوادر بلوچستان سے وابستہ ہے لیکن گوادر میں اب بھی ان حالات میں لوگوں کو پانی میسر نہیں ہے جس پر احتجاج کو ملکی سالمیت کا نام دیکر بلوچ قوم کے خلاف محاذ بناکر دہشت گردی کے نام پر دیوار سے لگایاجارہا ہے جو ریاست کے قائم کردہ توسیعی پالیسیوں کا حصہ جس کا مقصد بلوچستان کی سرزمین ساحل وسائل پر قدم جماکر بلوچ قوم کی شناخت اور حیثیت کو مسخ کرکے ان کی سرزمین پر تسلط کو مستحکم کیا جا سکے بلوچستان میں جس طرح کے حالات ریاست یا اس کے اداروں نے پیدا کئے ہیں جس کے پیش نظر بلوچ قومی نظریات بلوچستان کی جیو پولیٹیکل اسٹرجیٹک ضعیف کرنے کی کوشش جاری ہے سی پیک کے مسئلہ پر سیاسی ناکامی کو چھپانے کیلئے مردم شماری کا انعقاد ان حالات میں بلوچستان کے ساتھ کھلاناانصافی اور تسلط پسندی کی جانب پیش قدمی ہے حالیہ دہشت گردی کے باوجود افغان مہاجرین کی موجودگی اور انسر جنسی کاؤنٹر انسر جنسی کے باعث اپنے علاقوں سے بے دخل یا نقل مکانی کرنے والے لاکھوں بلوچ دٖیگر صوب46ں منتقلی کے باعث ان کی غیر موجودگی میں مردم شماریانتہائی انسانی بحران بن کر اہم تنازعہ کا باعث بنے گی مردم شماری کرنے سے قبل بلوچ قوم کے خدشات کو نظرانداز کرنا ایک سنگین مسئلہ اور متنازعہ عمل کے ساتھ دنیا میں ایک نیا مثال بن جائیگا اور بلوچستان دنیا کی شماریاتی تاریخ میں ایک ایسا خطہ بن جائیگا کہ بلوچ کی آبادی بڑھنے کے بڑھنے کا عمل ماضی کم سطح پر ہوتو ان حالات میں بلوچستان کے کی گئی ناانصافی نہ ختم ہونے والے تنازعات کا باب ثابت ہوگاجس سے امن کے متلاشی اپنے مستقبل کو تاریخی دہشت گردی کو تقویت دیکر اپنے مستقبل کو غیر نحفوبناکر اپنے آئندہ نسلوں کو دہشت گردوں کے سہارے خوف میں جینے کے لئے ہمیشہ کا دہشت گردی ماحول دیں گے۔