|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2017

اسلام آباد:وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سیاست کرنا گناہ عظیم ہے ٗ جون 2013 میں روزانہ 6 ، 7 دھماکے ہوتے تھےماضی کے مقابلے میں اب ہفتوں دھماکے نہیں ہوتے ٗپاکستان میں بہترسکیورٹی کا اعتراف پوری دنیا نے کیا ٗدہشتگردی کے و اقعات ختم نہیں ہوئے ٗ کمی ہوئی ہے ٗ یکجہتی اور قومی عزم کے اظہار سے عوام مضبوط ہونگے ٗ میڈیا خوف کی فضا پیدا کریگا تو قوم میں خوف پیدا ہوگا ٗ ملکی سلامتی کیلئے دہشت گردوں کی تشہیر روکنے کی اشد ضرورت ہے ٗہمیں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نمائندوں کو مکمل بلیک لسٹ کرناہے۔ ہفتہ کو یہاں سینئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ اہم ملکی امور پر مشاورت کے لئے میڈیا تنظیموں کے سربراہوں کو بلایا ہے ٗ اجلاس میں دہشت گردی کے یک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوگی ٗملکی سلامتی کیلئے دہشت گردوں کی تشہیر روکنے کی اشد ضرورت ہے ٗہمیں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نمائندوں کو مکمل بلیک لسٹ کرناہے ٗمیڈیا خوف اور تشویش کو عوام کے قریب نہ آنے دے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکے ٗوہ جذبہ لائیں جس سے دہشت گردی کی جنگ جیتی جاسکے ٗیکجہتی اور قومی عزم کے اظہار سے عوام مضبوط ہوں گے ٗمیڈیا خوف کی فضا پیدا کرے گا تو قوم میں خوف پیدا ہوگا۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں سیکیورٹی کے صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے اور جون 2013ء کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں روزانہ چھ سے سات دھماکے ہوتے تھے اور سال میں ہونے والے دھماکوں کی تعداد 2ہزار سے زیادہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ گویا پاکستان میں ہر روز دھماکہ ہوتا تھا تاہم یہ کوئی خبر نہ بھی جس دن کم دھماکے ہوتے تھے تو خبر بنتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال کے دوران 2006ء بعد پہلی مرتبہ ایک ہزار سے بھی کم سات سو کے قریب دھماکے ریکارڈ کئے گئے اور دہشتگرد کارروائیوں کا عالمی ریکارڈ رکھنے والے ادارے ان اعدادوشمار کی تصدیق کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی بدولت امن و امان صورتحال میں بہتری ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی ختم نہیں ہوئی بلکہ اسکا گراف نمایاں حد تک کم ہوا ہے ۔وزیر داخلہ نے کہا کہ پہلے افغانستان سے روزانہ 30ہزار کے قریب اور اس سے زائد افراد بغیر سفری کاغذات کے پاکستان میں آتے جاتے تھے انکا کو روٹ یا ریکارڈ نہ تھا اور نہ ہی کوئی پالیسی اور دیٹا بینک تھا ۔ انہوں نے کہا کہ میں حکومت کی کارکردگی اور اسکی تعریف کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین سالوں میں پہلی دفعہ عملی اقدامات کئے گئے اور دہشتگردی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کہا کہ میں کسی چیز کا کریڈیٹ نہیں لوں گا اور نہیں کسی پر تنقید کرونگا۔ کیونکہ دہشتگردی کی کارروائیوں میں کمی کا کریڈیٹ ہم سب کا مشترکہ ہے انہوں نے کہا کہ بطور وزیر داخلہ میں نے کبھی بھی کسی پر تنقید نہیں کی ۔ انہوں نے کہاکہ ایک دفعہ ہم نے ایک جیل پر حملہ کی معلومات دیں اور اس پر اجلاس بھی ہوئے اور آخری اجلاس کے روز شام کو جیل پر حملہ ہوا جس میں لوگوں کو چھڑوایا گیا جسکی میں نے تردید نہیں کی تھی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کریڈیٹ لینا مناسب نہیں اور اس پر سیاست کرنا گناہ عظیم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ سیہون کے بعد طبعیت کی خرابی کے باوجود وزیر اعظم نے دورہ کیا اور سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالہ سے اجلاس کی صدارت کی ۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر بھی وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ پر تنقید کی گئی جس پر میں نے پہلی دفعہ کہا کہ کیا درگاہ کی سیکیورٹی وفاقی یا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وہاں پر سیکیورٹی کے ناقص انتظامات پر بات کی لیکن اس کی بھی زیادہ تشہیر نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ دورہ کے موقع پر اجلا س میں متعلقہ حکام سے سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالہ سے بات چیت ہوئی اور چیف سیکرٹری سندھ سے دھماکے سے پہلے کے حالات معلوم کئے تو ان کا کوئی جواب نہ تھا جس پر آرمی چیف نے بھی کہا کہ سیکیورٹی کا مناسب انتظام کیا جانا چاہئے تھا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سہیون واقعہ پر سندھ حکومت کے ترجمان وفاقی حکومت اور وزیر داخلہ پر تیر چلاتے رہے ٗوہ بطور وزیر داخلہ کسی پر تنقید نہیں کرتے لیکن ساڑھے 3 سال میں پہلی بار سیہون واقعہ پر جواب دیا۔ وہ یہ بتائیں سیہون میں سیکیورٹی کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی یا صوبائی حکومت کی۔وزیر داخلہ نے کہا کہ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان آسمان سے نہیں آیا ٗیہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ٗاس کے 10 نکات صوبائی حکومتوں کے ذمہ ہیں ٗباقی 10 میں سے بھی 4 وزارت داخلہ کے ذمہ ہیں۔