|

وقتِ اشاعت :   March 6 – 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو سفری پابندی کے ایک نئے حکم نامے پر دستخط کیے، اور 6 ملکوں کے شہریوں پر 3 مہینے کے لیے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگ گئی ہے؛ جبکہ تمام پناہ گزینیوں پر 4 مہینے کی پابندی ہوگی۔ اس سے پہلے ایک فیڈرل اپیلز جج نے اسی قسم کے ایک حکم نامے کو لاگو ہونے سے روک دیا تھا۔ اس بار حکم نامے کو قانونی چارہ جوئی سے بچانے کے لیے، اس کے بعض پہلووں کو 27 جنوری کے حکم نامے سے مختلف رکھا گیا ہے۔ اس میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ عراقی شہریوں کو پابندی کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ نئے حکم نامے میں ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کی شہریت رکھنے والوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ نئی پابندی 16 مارچ سے عائد ہوگی اور یہ امریکہ میں مستقل رہائش رکھنے والے، یعنی، ’گرین کارڈ‘ کے حامل افراد پر لاگو نہیں ہوگی؛ اور وہ مسافر جن کے پاس 27 جنوری 2017 کو قانونی ویزے تھے۔ پیر کے حکم نامے میں سے شام کے پناہ گزینوں پر غیر معینہ مدت تک امریکہ میں داخلے پر پابندی کی شق نکال دی گئی ہے۔ ساتھ ہی، مذہبی اقلیتوں سے متعلق شامل الفاظ بھی نکال دیے گئے ہیں، جنہیں ٹرمپ کے وعدے کے مطابق مسیحی پناہ گزینوں کو ترجیح دینے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ عراق کا فہرست میں سے اُس وقت نام نکالا گیا جب وہاں تعینات حکام نے کڑی نگرانی کے عمل لیے امریکی حکام سے زیادہ تعاون کا وعدہ کیا۔ یہ بات محکمہٴ ہوم لینڈ سکیورٹی کے ایک اعلیٰ اہل کار نے بتائی ہے، جنھوں نے کانفرنس کال پر اخباری نمائندوں سے بات چیت کی۔ عراق نے، جو داعش کے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں امریکہ کا کلیدی اتحادی ہے، اُس وقت شکایت کی تھی جب عراق کو سفری پابندی کے پہلے حکم نامے میں شامل کیا گیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سوال و جواب پر مشتمل جاری کردہ متن میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکہ اور عراق کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کے درمیان قریبی تعاون کے تعلقات، عراق میں مضبوط امریکی سفارتی موجودگی، عراق میں امریکی افواج کی اہمیت کی حامل تعیناتی، اور داعش کے انسداد کے سلسلے میں عراق کا عزم مختلف طریقہٴ کار برتنے کا متقاضی ہے‘‘۔ اصل حکم نامے کے ناقدین نے سوال کیا ہے آیا ساتوں متاثرہ ممالک کو، جو تمام کے تمام اکثریتی مسلمان ملک ہیں، مذہبی بنیاد پر ہدف بنایا گیا ہے۔ محکمہٴ ہوم لینڈ سکیورٹی کے ایک اہل کار نے پیر کو ایک بار پھر اِن الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ کسی طور پر اور کسی لحاظ سے بھی مسلمانوں کے خلاف پابندی نہیں ہے‘‘۔ محکمہٴ ہوم لینڈ سکیورٹی نے بھی حکم نامے کی عبوری نوعیت کو اجاگر کیا ہے، حالانکہ بعدازاں اعلیٰ اہل کاروں نے مشورہ دیا کہ 90 روز گزر جانے کے بعد، سفری پابندی کو وسعت دی جا سکتی ہے۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ فہرست میں دیگر ملکوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ردِ عمل نظرثانی شدہ حکم نامے کے بعد متعدد ناقدین کی تشفی ہوجائے گی۔ اس میں امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) بھی شامل ہے، جس نے اصل حکم نامے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی راہ اپنائی تھی۔ ایک بیان میں، ’اے سی ایل یو‘ نے کہا ہے کہ پہلے حکم نامے کی طرز پر، نظرثانی شدہ حکم نامے میں بھی ’’وہی شدید نقائص موجود ہیں‘‘۔ عمر جودت، ’اے سی ایل یو‘ میں تارکینِ وطن کے منصوبے کے سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’’دراصل مسلمانوں پر روک لگانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، جس سے اُن پر پابندی لگائی جا سکتی تھی۔ برعکس اس کے، صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر مذہبی امتیاز کا اعادہ کیا ہے، جس بنا پر توقع ہے کہ عدالتیں اور عوام دونوں ہی اِسے تسلیم کرنے پر رضامند نہیں ہوں گے‘‘۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ جو ترامیم ٹرمپ انتظامیہ نے کی ہیں، اور وہ تمام باتیں جو پہلے حکم نامے کے بعد سے ہمارے علم میں آئی ہیں، اِن سے صدر کی جانب سے پیش کردہ توجیہ بھونڈے پن پر مبنی لگتی ہے، چونکہ اُنھوں نے چُھپنے کی راہ اپنائی ہے، جس کی وجہ سے اُن کے غیر آئینی انتظامی حکم ناموں کے خلاف مقدمہ مزید مضبوط ہوتا ہے‘‘۔