|

وقتِ اشاعت :   March 14 – 2017

اسلام آباد: اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کو قومی غدار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے الزامات کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے موصوف نے صرف نئی امریکی انتظامیہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسے الزامات دیتے رہے ہیں ان خیالات کا اظہار قومی اسمبلی میں اظہار خیال کررہے ہیں اس سے قبل اسلام آباد قومی اسمبلی میں اراکین نے امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی کے بیانات کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں پاکستان کا غدار قرار دیا ہے۔ اراکین نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ خاکوں اور نبی پاک ؐ کی شان میں توہین آمیر تصاویر اور خاکوں کے خلاف وزارت داخلہ اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اراکین نے نیشنل ایکشن پلان اور سائبر کرائم بل پر بھی مکمل طریقے سے عمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیر کے روز قومی اسمبلی اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے رکن اسمبلی اویس لغاری نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے اور کشمیر کے بارے میں حکومت نے جرات مندانہ پالیسی اپنائی ہے اسی طرح دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابیوں کے علاوہ ملک میں چین کے تعاون سے اقتصادی کامیابیاں ملی ہیں اور ملک میں سول و ملٹری آرمڈ فورسز نے قربانیاں دی ہیں اس موقع پر سابق سفیر کی جانب سے پاکستان کے دہشتگردی کے خلاف کردار کو مشکوک قرار دینا پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر نے مترادف ہے اور اس کا مقصد ایسے الزامات لگانا ہے تاکہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف دی گئی قربانیوں کو کمزور کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ حسین حقانی کا کردار اچھا نہیں ہے تاہم اس وقت کے حکمرانوں کو اس کی تردیدکرنی چاہیئے تاکہ پاکستان کے امیج کو خراب کرنے کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے اور پاکستان کو کسی بھی موقع پر ہزیمت یا شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حسین حقانی امریکہ کی نئی حکومت کو متوجہ کرنے کے لئے ایسے بیانات دے رہا ہے اس کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے اس کو پیپلز پارٹی نے ہٹا کر شیری رحمن کو سفیر مقرر کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں حسین حقانی کو اہمیت دینے کی بجائے نظر انداز کرنا بہتر ہو گا اور ہمیں حالات کا ادراک کرنا چاہیئے۔ رکن اسمبلی خسرو بختیار نے کہا کہ قومی اسمبلی میں حسین حقانی پر وقت ضائع کیا جا رہ اہے اس کے بیانات کا عالمی سطح اور خصوصاً امریکہ میں کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی شیخ صلاح الدین نے کہا کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ سے افوہایں پھیل رہی ہیں ۔ حسی نحقانی جیسے شخص کو اتنے اہم عہدے پر نامزد کیا گیا جس نے پاکستنا کی پیٹ میں چھرا گھونپا ہے دریں اثناء امریکہ میں سا بق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ اپنی سفارتکاری کے دوران میں نے جو کچھ کیااس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت کی اجازت سے کیا ، مجھ پر غیر ملکیوں کو ویزے دینے کا الزام لگایا گیا جو غلط ہے ،پیپلز پارٹی اس وقت پھنس چکی ہے ‘ پیپلزپارٹی خود بچنے کے لئے مجھ پر تنقید کر رہی ہے ، امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے فضاء بہت خراب ہو رہی ہے اور اس وقت امریکہ پاکستان پر اعتماد نہیں کرتا اور پاکستان بھی امریکہ پر اعتماد نہیں کر رہا ،پیپلز پارٹی کی طرف سے لاتعلقی کا اعلان کے باجود میری ہمدردیاں اس کے ساتھ ہیں ۔ وہ پیر کو نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میں 1993 سے پاکستان پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہا ۔ اس کے علاوہ پارٹی کی بہت سی کمیٹیوں کا بھی حصہ رہا مگر چند ماہ قبل میرے خیالات سے پیپلز پارٹی کی طرف سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا گیا ۔ مگر میری ہمدردیاں اس وقت بھی پاکستان کی جمہوری قوتوں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں ۔ حسین حقانی نے کہا کہ میرا مضمون سفارتکاری کے بارے میں ہے مگر اس کی پاکستان میں غلط تشریح کی جا رہی ہے ۔ میں مضمون میں لکھا ہے کہ جب اسامہ بن لادن کیلئے آپریشن کیا گیا تو پاکستان کو بالکل نہیں بتایا گیا ‘ دوسرا میں نے لکھا کہ انتخابی مہم کے دوران میرے ذریعے امریکہ نے جو تعلقات قائم کئے انہی کی نبیاد پر امریکیوں نے ہم سے درخواست کی کہ ہمیں اپنے کچھ لوگ وہاں متعین کرنے ہیں مگر یہ میں نے نہیں کہا کہ وہ لوگ وہاں متعین بھی کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ میں نے لکھا کہ اسامہ بن لادن کے پاکستان سے ملنے کے بعد سے امریکہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر بالکل اعتماد نہیں کرتا۔ یہ ایک معروف بات ہے اس میں کوئی انکشاف نہیں ہے۔ اپنے مضمون کے آخر میں میں نے لکھا کہ میرے اوپر الزامات لگائے گئے ہیں کہ میں نے بہت سے ویزے دئیے اس پر میں نے یہ لکھا کہ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ پاکستانی حکومت کی اجازت سے کیا تھا۔ سابق سفیر حسین حقانی نے کہا کہ ویزوں کے معاملے پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کیا ہمار ے لوگوں کو علم تھا کہ وہ کس کو ویزے دے رہے ہیں یا نہیں۔ مگر مجھے اس کا علم نہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی وہاں موجود تھے جنہوں نے اس اقدام میں ان کی مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس چکر میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلائے کہ وہ بہت اچھے لوگ ہیں اور اسٹبلشمنٹ کے کچھ لوگ ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے مطلب کی بات پر شور مچا لیتے ہیں۔ بہت سارے اینکرز ہیں جو اسٹبلشمنٹ کے ایجنڈے پر پورا عمل کرتے ہیں۔ اس لئے گھبرا کر پیپلز پارٹی والوں نے سوچا کہ آسان کام یہی ہے کہ حسین حقانی سے ہی نجات حاصل کر لی جائے۔ ویسے بھی سکھر اور واشنگٹن کا فاصلہ بہت زیادہ ہے ۔ حسین حقانی نے کہاکہ پاکستان میں کسی پر لیبل لگانا آسان ہے اور پھر اس لیبل سے جان چھڑانا مشکل ہے۔ تجزیہ کرنا مشکل ہے اور بیان بازی آسان ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے بارے میں رائے بہت خراب ہو رہی ہے۔ اس وقت دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے ۔ پاکستان میں لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب چین آ گیا ہے تو ہم چین کی مدد سے آگے بڑھیں گے ہمیں امریکہ کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکہ میں یہ سوچا جا رہا ہے کہ پاکستان کو اس کے اقدامات اور پالیسیوں کی وجہ سے سزا کس طرح دی جائے۔ اس وقت بہت سمجھداری کے ساتھ درمیان درمیان میں چلنے کی ضرور ت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پرابلم یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر آدمی میڈیا پر آئے اور امریکہ کے خلاف تقریر کر کے چلا جائے۔ مولانا فضل الرحمن اور سمیع الحق نے تو امریکہ سے ہمار تعلقات درست نہیں کروانے۔ تعلقات تو دوست وہی کروائے گا جس کو امریکن قابل اعتماد سمجھیں گے ۔ حسین حقانی نے کہا کہ میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ میں نے اپنے مضمون میں میں کہیں نہیں لکھا کہ آپریشن کے وقت پاکستان کے سول و عسکری حکام کو پہلے سے معلوم تھا کہ میں نے صرف یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اس دور میں امریکہ پاکستان میں سول حکام پر اعتماد کرنے کو تیار تھا اور عسکری حکام پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زرداری صاحب یا گیلانی صاحب کو کچھ بتایا گیا تھا اور نہ ہی ایسی کوئی بات میں نے کہی ہے نہ ہی کہوں گا کیونکہ اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ میں بیٹھے سفیر کو امریکہ کے حالات کا پتہ ہوتا ہے اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے اس بات کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ اس وقت کے اچھے تعلقات کی وجہ سے پہلی بار ساڑھے 7 ارب ڈالر کا سویلین پیکج پاکستان کو ملا۔ ۔۔