|

وقتِ اشاعت :   March 23 – 2017

اسلام آباد : سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ خود کو واشنگٹن کا فلسفی سمجھنے والے حسین حقانی اور ہماری سوچ میں بڑا فرق آ چکا ۔ ان کی کتاب اور باتوں سے متفق نہیں بے نظیر اور کارکنوں کے قاتل دہشتگردوں سے لڑنے والی فوج کے راستے میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ نواز شریف کی پالیسیاں سمجھ سے بالاتر ہیں جمہوریت کا ساتھ دیا ، نہیں چاہتا کہ کوئی آئے اور کہے کہ تم سے جمہوریت نہیں سنبھالی جاتی۔ پانامہ کے فیصلے کا مجھے بھی انتظار ہے۔ جمہوریت کے لئے قربانی دی۔ نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم نے فوجی عدالتوں کی 2سال کے لئے پہلے بھی اجازت دی تھی اس وقت بھی فوجی عدالتوں کی تمام سیاسی جماعتیں حمایت کرتی تھیں۔ وقت بتائے گا فوجی عدالتیں کتنی کامیابی رہیں۔ دنیا کی پاکستان پر نظریں ہیں اور پاکستان کو غیر ذمہ دار ملک کہا جا رہا ہے۔ ہم نے ساری باتیں سوچ کر مسودہ بنایا تھا جو کچھ لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر کو شہید کرنے والوں کے ساتھ فوج لرے تو ہم راستے میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ حکومت دو سال تک سنجیدہ نہیں تھی دہشتگردی 2سال میں ختم نہیں ہو سکتی۔ انتہا پسندی کہیں بھی ہو اسے اندر سے کم باہر سے زیادہ سپورٹ ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلاول اور میرا ارادہ اسی پارلیمنٹ میں آنے کا ہے۔ پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں میں یہی فرق ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنے تاثرات اور تحفظات کا اظہار کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے بچوں کو بھی تنقید کا حق ہے ۔ عرفان اللہ مروت بارے بچوں کے اپنے تاثرات تھے۔ عرفان اللہ مروت بارے بچوں کے جو تحفظات تھے ان کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناہید خان ہمیشہ بے نظیر کے ساتھ رہیں ہمارے چند اختلافات ہیں بے نظیر کی شہادت کے وقت ہم حواس میں نہیں تھے۔ صفدر عباسی نے ایک بات کہی جو مجھے بری لگی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی مفاہمت کی تھی ہم ملک کو چلانا چاہتے تھے۔ اسامہ جیسا مسئلہ ہمارے سامنے آیا پارلیمنٹ نے اس کا سامنا کیا۔ انہوں نے کہا کہ حسین حقانی اور ہماری سوچ میں بڑا فرق آ چکا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ حسین حقانی نے کہا ہے نہ ہی اس کو ویزہ دینے کا اختیار تھا ۔ حسین حقنای خود کو واشنگٹن کا فلسفی سمجھتے ہیں ان کی باتوں اور کتاب سے متفق نہیں ۔ ایک سوال پر کہا کہ پانامہ کیس کے فیصلے کا مجھے بھی انتظار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانا اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کا فیصلہ تھا۔ جن کا کہنا تھا کہ رپورٹ عام کرنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ باراک اوبامہ سے بڑی امیدیں تھیں۔ اوبامہ اس معیار پر نہیں پہنچ سکے جس کی ہمیں امید تھی۔ نیو یارک میں سابق میئر ارو کچھ دیگر لوگوں سے مل کر آیا ہوں ریپبلکن کی اپنی لابی اور سوچ ہے۔ ہمیں ان سے بھی کام لینا ہے ۔ ایک سوال پر کہا کہ مجھے امریکہ میں داخلہ نہیں چاہیئے میں امریکہ سے اچھے تعلقات اور تجارت چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جمہوریت کی سپورٹ کی ہے۔ میں نے عام انتخابات کے نتائج کو بھی نہیں مانا تھا۔ میں نے تخت لاہور سے کوئی زمین یا ٹھیکہ نہیں لینا میں نہیں چاہتا کہ کوئی آئے اور کہے کہ تم سے جمہوریت نہیں سنبھالی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی سیاستدان کسی ملک میں اکاؤنٹ نہیں کھول سکتا میاں صاحب کھول سکتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ دھوکہ میرے ساتھ دھوکہ ہے۔ سوئس اکاؤنٹ میں اگر پیسے ہیں تو وہ کسی غیر ملکی کے ہوں گے نہ یہ پیسے میرے ہیں نہ کسی پاکستانی کے ہیں۔