شمالی کوریا کے میزائل پروگرام پر خدشات میں اضافے کے باعث امریکی فوج نے بحریہ کے سٹرائیک گروپ کو کوریائی خطے کے جانب پیش رفت کا حکم جاری کیا ہے۔
کارل ونسن سٹرائیک گروپ نامی بحری بیڑہ ایک طیارہ بردار جہاز اور دوسرے جنگی جہازوں پر مبنی بیڑہ ہے۔
امریکی پیسفک کمانڈ نے اس تعیناتی کو خطے میں تیار رہنے کی حکمت عملی قرار دیا ہے۔ یہ بیڑہ اب مغربی بحرالکاہل کی جانب گامزن ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے جوہری اسلحے کے خطرات سے نمٹنے کے لیے امریکہ تنہا ہی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی پیسفک کمانڈ کے ترجمان ڈیو بنہیم نے کہا: ‘اپنے بے پروا، غیر ذمہ دارانہ اور میزائل کے تجربوں سے غیر مستحکم کرنے اور جوہری اسلحے کی صلاحیت کی خواہشات کے سبب خطے میں سب سے بڑا خطرہ شمالی کوریا ہے۔’
اس سٹرائیک گروپ میں نیمٹز درجے کا طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس کارل ونسن کے علاوہ دو گائیڈڈ میزائل شکن اور ایک گائیڈڈ میزائل لانچ کرنے والا جہاز شامل ہے۔
حملے کی زبردست قوت رکھنے والے اس جنگی بیڑے میں بیلسٹک میزائل کو تباہ کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔
اس بیڑے کو پہلے آسٹریلیا پر لنگر انداز ہونا تھا لیکن پھر سنگاپور سے اس کا رخ مغربی بحرالکاہل کی جانب موڑ دیا گیا۔ جہاں اس نے حال ہی مین جنوبی کوریا کی بحریہ کے ساتھ جنگی مشق کی ہے۔
شمالی کوریا نے حال میں کئی جوہری تجربات کیے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں یہ جوہری اسلحہ بنا سکتا جس میں کہ امریکہ تک مار کرنے کی صلاحیت ہو سکتی ہے۔
بدھ کو شمالی کوریا نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا اپنے مشرقی ساحل سنپو سے جاپان کے سمندر میں تجربہ کیا تھا۔
اس تجربے کی جاپان اور جنوبی کوریا نے مذمت کی تھی اور یہ تجربہ چینی صدر شی جن پنگ کی امریکی صدر سے ملاقات کے ایک روز قبل ہوا تھا۔
اس کے بعد دونوں رہنماؤں نے شمالی کوریا کے میزائل پروگرام پر لگام لگانے کے طریقے پر بات کی تھی۔
چین کو اپنے تاریخی حلیف پیونگ یانگ کو تنہا کرنے میں ہچکچاہٹ ہے کیونکہ اسے اس بات کا خوف ہے کہ اگر شمالی کوریا کا سقوط ہوتا ہے چین میں پناہ گزین کا بحران پیدا ہو جائے گا اور امریکی فوج اس کے دروازے پر آ بیٹھے گی۔