|

وقتِ اشاعت :   May 10 – 2017

ایرانی قونصل جنرل نے انکشاف کیا ہے کہ ایرانی حکومت نے سزائے موت پانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے پوچھ گچھ کے لیے پاکستانی حکام سے درخواست کی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں تعینات ایران کے قونصل جنرل محمد رفیع نے دو روز قبل پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران کلبھوشن یادیو سے متعلق کسی بھی اجلاس میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ایرانی حکومت نے کلبھوشن یادیو سے پوچھ گچھ کے لیے پاکستانی حکام سے درخواست کی ہے۔‘ محمد رفیع نے کہا کہ ’کلبھوشن سے متعلق حکومت پاکستان سے دستاویزات مانگی گئی تھیں اور پوچھ گچھ کی درخواست کی گئی تھی، تاہم اس حوالے سے ابھی بات چیت جاری ہے اور کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ایرانی وزیر خارجہ نے پاک ۔ ایران سرحد کے نزدیک دہشت گرد حملے میں 10 ایرانی سرحدی محافظوں کی ہلاکت کے بعد دوطرفہ بات چیت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ جواد ظریف نے اپنے دورے میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اہم ملاقاتیں کی تھیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو یہ سزا پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سنائی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کلبھوشن یادیو کا ٹرائل کیا اور سزا سنائی۔ بعد ازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی مجرم کی سزائے موت کی توثیق کی۔ سزا کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اپنے فوری ردعمل میں بھارت کا کہنا تھا کہ اگر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا تو یہ ’پہلے سے سوچا سمجھا قتل‘ تصور کیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی دفتر خارجہ نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرکے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائے جانے کو ‘مضحکہ خیز’ قرار دیتے ہوئے انہیں احتجاجی مراسلہ بھی دیا تھا۔ کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے گرفتار کیا تھا۔ ‘را’ ایجنٹ کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی ‘را’ میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔ کلبوشھن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ‘را’ کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔ ویڈیو میں کلبوشھن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔ کلبھوشن یادیو کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کارروائیوں کے پیچھے ‘را’ کا ہاتھ ہے۔