اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی کی تحقیقات کو غیر شفاف اور جانبدار قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رپورٹ مسترد کرنے کی درخواست کردی۔
وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر گیارہ صفحوں پر مشتمل اپنے اعتراضات جمع کرائے جن میں استدعا کی گئی کہ زمینی حقائق مدنظر رکھتے ہوئے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا جائے۔
وزیراعظم نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے برطانیہ میں تحقیقات کے لیے اپنے کزن کی فرم کی خدمات حاصل کرکے قانون کی خلاف ورزی کی۔
وزیر اعظم نے اپنے اعتراض میں کہا کہ شریف فیملی کے خلاف غیر تصدیق شدہ دستاویزات اور زبانی معلومات پر نتائج اخذ کئے گئے، جے آئی ٹی رپورٹ شکوک و شبہات، مفروضوں پر مشتمل ہے اور وزیر اعظم کو عوام کی نگاہ میں بدنام کرنے کی کوشش ہے۔
غیر جانبدار تحقیقات کے بغیر فیئر ٹرائل نہیں ہو سکتا، جے آئی ٹی نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے گواہان سے اپنی مرضی کے مطابق بیان لینے کی کوشش کی، گواہان پر نہ صرف نواز شریف کے حق میں دیئے گئے بیانات واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے عدالتی اختیارات استعمال کئے اور دستاویزات کے لئے غیر قانونی طور پر چیئرمین نیب کو بلایا، جب کہ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بنک کے نمائندوں پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے، حالانکہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد حدیبیہ پیپرز ملز کیس پر تحقیقات نہیں کی جاسکتی۔
پوری تحقیقات جے آئی ٹی ممبران کی بد نیتی کو ظاہر کرتی ہے، اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے مختلف افراد کو قانونی فرمز کی خدمات لی گئیں ، تمام شواہد قانون کے برخلاف اکٹھے کئے گئے، جے آئی ٹی کے حاصل کئے گئے شواہد قانون کے مطابق قابل قبول نہیں اور فائنڈنگز کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔
عدالت عظمی میں دائر کی گئی درخواست میں جے آئی ٹی رپورٹ کے جلد نمبر 10 سے متعلق موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جلد نمبر 10 فراہم نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اسے مشتہر نہ کرنا بدنیتی ظاہر کرتا ہے، کیس چلانے سے پہلے جلد نمبر دس فراہم کی جائے، جلد نمبر دس کی فراہمی کے بعد ہی وزیراعظم عدالت کے سامنے موقف پیش کر سکیں گے۔