|

وقتِ اشاعت :   November 13 – 2017

 اسلام آباد: لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر کسی نے جرم کیا تو اسے سزا ملنی چاہیے لیکن اگر حراستی مرکز میں کوئی بے گناہ قید ہے تو اسے رہا کیا جائے۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر حکومتی وکیل ساجد الیاس بھٹی کا کہنا تھا کہ حراستی مراکز کے معاملے کا تعلق محکمہ داخلہ اور قبائلی علاقوں سے ہے، قبائلی علاقوں میں قائم فعال حفاظتی مراکز کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ آخری سماعت پر تاسف ملک کی اس کے اہل خانہ سے ملاقات کا حکم دیا تھا، اگر کسی نے جرم کیا تو اسے سزا ملنی چاہیے لیکن اگر حراستی مرکز میں کوئی بے گناہ قید ہے تو اسے رہا کیا جائے۔ 

طارق اسد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ راجن پور سے کچھ لوگوں کو اٹھا کر سہون شریف کے مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی گئی تاہم اے ڈی خواجہ نے مداخلت کر کے ایک شخص کو سہون شریف واقعے میں پھنسانے سے بچایا۔

لاپتہ فرد کے والد نے عدالت کو بتایا کہ میں اپنے بیٹے کے بچوں سے جھوٹ بول بول کر تنگ آ چکا ہوں، میرے بڑے بھائی سید علی گیلانی کے سیکرٹری ہیں۔ عدالت نے حراستی مرکز میں قید تاسف ملک کی اہل خانہ سے ہفتے میں ملاقات کروانے کا حکم دیا جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ ہمیں صاف صاف بتائیں کسے کیوں اٹھایا گیا اور الزام کیا ہے، گزشتہ سماعت پر بھی لاپتہ افراد کے اٹھائے جانے سے متعلق رپورٹ مانگی تھی جب کہ مجرمان کو قانون کے مطابق کارروائی کر کے سزا دی جائے۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ ہم لاپتہ افراد کے مقدمات کے حل کے لیے ٹھوس حل تلاش کر رہے ہیں، عدالتی احکامات پر عمل درآمد کیسے نہیں ہو رہا۔عدالت نے لاپتہ افراد مقدمات کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔