مصر ی میڈیا کے مطابق ملک کے شمالی صوبے سینائی میں ایک مسجد پر جمعے کی نماز کے دوران حملے میں کم از کم 235 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ریاستی نیوز ایجنسی کے مطابق مسجد پر بم حملے کے بعد مسلح افراد نے گولیاں بھی چلائیں۔
حکام کے مطابق اس حملے میں کم از کم 130 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔مرنے والوں میں عورتیں، بچے اور فوجی اہلکار شامل ہیں۔اسے مصر میں جاری حالیہ کشیدگی کے بعد ہونے والا بدترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔مصری میڈیا کے مطابق شمالی سینائی خطے میں اسلامی عسکریت پسند کئی برسوں سے متحرک ہیں لیکن ان کا نشانہ زیادہ تر سکیورٹی فورسز ہوتی ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انہوں نے مسجد میں نمازیوں کو نشانہ بنایا ہے۔سینا کے شمالی علاقوں میں گزشتہ چند سالوں سے میڈیا کی رسائی نہیں ہے۔ یہاں کسی بھی میڈیا کی تنظیم کو جانے کی اجازت نہیں حتٰی کی ریاستی تعاون سے چلنے والے میڈیا کو بھی نہیں۔حملوں کی تعداد نے فوجی کارروائیوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
فوج کے آئے دن بیانات سامنے آتے رہتے ہیں کہ اس نے سینا کے مختلف حصوں میں فتح حاصل کر لی ہے لیکن فوج اور شدت پسندوں کے درمیان جاری لڑائی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔مصری حکومت نے اس حملے کے بعد تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
سنہ 2013 میں صدر مرسی کی معزولی کے بعد سے اسلامی شدت پسندوں کی جانب سے بغاوت میں شدت آئی اور حملوں کا آغاز ہوا۔تب سے سینکڑوں پولیس اہلکار، فوجی اور عام شہری حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر حملے سینائی صوبے کے اس گروہ کی جانب سے کیے گئے جو نام نہاد تنظیم دولتِ اسلامیہ سے منسلک ہے۔مصرمیں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے کی عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے ہیں ۔
یہ ایک بڑا واقعہ ہے جس میں بہت سی جانیں گئی ہیں اب تک مصری حکومت کی جانب سے کوئی واضح بیان نہیں آیا ہے کہ حملے میں نشانہ سیکیورٹی اہلکاروں کو بنایاگیاتھا یا ایک منصوبہ بندی کے تحت اس مقام پر حملہ کیا گیا۔
اس واقعہ نے مصرمیں ایک نئے خوف کو جنم دیا ہے ۔ بہرکیف یہ امر باعث تشویش ہے کہ موجودہ دہشت گردی کی لہر میں سب سے زیادہ نشانہ مسلم ممالک ہیں اور زیادہ تر شدت پسندی کے واقعات مسلم ممالک میں رونما ہورہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ مسلم ممالک پر مشتمل اوآئی سی اپنا متحرک کردار ادا کرے مگر اب تک او آئی سی مکمل غیر فعال رہی ہے جس کی وجوہات بھی شاید آپسی تعلقات میں کشیدگی ہے۔
مسلم ممالک کے برعکس کچھ عرصہ قبل جب یورپ میں شدت پسندی کے حملے رونما ہوئے تو یورپی یونین سمیت امریکہ اور عالمی برادری ایک پیج پر نظر آئی اور وہاں ٹارگٹڈکارروائیوں کے ذریعے شدت پسندی کے حملوں میں کمی لائی گئی اور اب وہاں اس طرح کے حملے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک مسلم ممالک آپسی تعلقات کو مستحکم اور رنجشوں سمیت اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل نہیں کرینگے تو دہشت گردی پر قابو نہیں پاسکیں گے کیونکہ شدت پسندوں نے بعض ایسے ممالک میں اپنے بیس بنا رکھے ہیں جہاں وہ منظم ہوکر مختلف ممالک کو اپنا ہدف بناتے ہیں اور جن ممالک میں ان کی پناہ گاہیں سمیت ٹریننگ کیمپ ہیں ان ممالک کو بھی نہیں بخشتے۔
بدقسمتی سے اب تک واضح پالیسی سامنے نہ آنے کی وجہ سے مسلم ممالک کو دہشت گردی کا سامنا کرناپڑرہا ہے ۔اب یہ ذمہ داری مسلم ممالک کے سربراہان کی ہے کہ وہ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پیج پر آکر دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کریں تاکہ مسلم ممالک میں دہشت گردی کے واقعات کا سدباب ہوسکے۔