سریاب روڈ پر خودکش حملے کے بعد شہری انتظامیہ نے سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹی دکانیں بند کرادیں ہیں اور عوام الناس کو یہ غلط تا ثر دیا کہ اس خودکش حملے میں ان دکانداروں کا ہاتھ تھا ۔ انتظامیہ نے اس وقت تک دکانیں بند رکھنے کا حکم دیا ہے جب تک دکانداراپنی دکانوں میں سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں لگاتے ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اس علاقے میں سوائے ایک آدھ بڑی بیکری کے تمام دکانیں انتہائی چھوٹی ہیں جن کے پاس یہ سکت نہیں کہ ایک لاکھ روپے خرچ کرکے سی سی ٹی وی کیمرے اپنی دکانوں میں لگائیں ۔ انجمن تاجران کوئٹہ نے اس پر احتجاج کیا ہے اور حکم نامہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ سریاب روڈ پر واقع سینکڑوں دکاندار اس نادر حکم شاہی سے متاثر ہوئے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دکاندار غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو صرف اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے رزق حلال کماتے ہیں ان کی آمدنی انتہائی محدود ہے اور انکے پاس یہ سکت قطعاً نہیں ہے کہ وہ اپنے دکانوں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائیں۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اس کا نوٹس لیں کہ کیوں ان دکانداروں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے ۔
وزیراعلیٰ سے عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس نادر شاہی حکم نامے کو واپس لینے اور تما م دکانوں کو دوبارہ کھولنے کے احکامات جاری کریں گے۔ ہزاروں کی تعداد میں مقامی رہائشی تمام ضرورت کی اشیاء ان قریبی دکانوں سے خریدتے ہیں ۔
شاذو نادر ہی بڑی خریداری کے لئے بازار کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن گزشتہ چار دنوں سے ہزاروں کی تعداد میں مقامی رہائشی پریشان ہیں اور حکومتی اہلکاروں کی نادر شاہی احکامات پر نالاں ہیں جو عوام الناس کے لئے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں حالانکہ حکومت اور حکومتی اہلکاروں کا کام عوام کو سہولیات پہنچانا ہے، تکالیف دینا نہیں ۔اس طرح کے احکامات خراب حکمرانی کے زمرے میں آتے ہیں ۔
جہاں تک سرکاری اہلکاروں کی سیکورٹی کا تعلق ہے یہ ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ سیکورٹی کا بہترین انتظام کریں اگر کیمرے نصب کرنے ہیں تو حکومت عوامی ٹیکس کی رقم سے جہاں جہاں ضرورت ہو کیمرے نصب کرے، اس کا بوجھ عوام الناس پر نہ ڈالا جائے خصوصاً غریب ‘ چھوٹے دکانداروں پر جو صرف معمولی آمدنی پر گزارا کرتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھرتے ہیں۔
ان دکانوں کو بند کرنا زیادتی ہے ، ناجائز ہے، ظلم ہے ،ا س لیے اس حکم نامے کو واپس لیاجائے ۔ بلکہ اس کی تحقیقات کی جائے کہ وزیراعلیٰ کی اجازت کے بغیر اس قسم کے غلط احکامات کیوں جاری کیے گئے اور کس کے حکم پر جاری کیے گئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ انتہائی چھوٹے لیول پر ہوا ہوگا جس پر ان افسران کی سرزنش ضرور ی ہے جو عوام الناس کے لئے باعث ہزیمت بنے ہوئے ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی صوبائی حکومت کو وفاق سے کئی سو ارب روپے سالانہ ملتے ہیں اسی میں سے چند لاکھ روپے خرچ کرکے جہاں جہاں ضرورت ہو، وہاں سرکاری خزانے سے کیمرے لگائے جائیں ، عوام الناس پر غیر ضروری طورپر مالی بوجھ ڈالنے سے اجتناب کیاجائے کیونکہ یہ پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں، ان کی پریشانیوں اور تکالیف میں مزید اضافہ نہ کیا جائے۔
یہ تمام باتیں اچھی حکمرانی کے زمرے میں نہیں آتیں ا س لیے اس حکم نامے کوواپس لیاجائے ۔انجمن تاجران کے عہدے داروں سے گزارش ہے کہ وہ یہ معاملہ وزیراعلیٰ کے ذاتی نوٹس میں لائیں تاکہ یہ حکم نامہ فوری طورپر واپس لیاجائے اور مزید اس قسم کے احمقانہ حکم نامے دوسرے علاقوں میں جاری نہ کیے جائیں اور عوام الناس کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ کیاجائے ۔