|

وقتِ اشاعت :   January 22 – 2018

اسلام آباد: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان مخالف اپنا ٹوئٹ واپس لیکر معافی مانگنی چاہیے ٗ نوازشریف کے خلاف فیصلے کو عوام نے قبول نہیں کیا اور نہ ہی تاریخ قبول کریگی ۔

ٗعمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ سے متعلق کی گئی باتیں درست نہیں ٗوہ اپنے توہین آمیز کلمات پر معافی مانگیں ٗزینب کے مسئلے پر سیاستدانوں نے سیاست چمکائی ٗ کوئی بھی ملک کا قانون سرعام پھانسی کی اجازت نہیں دیتا ٗ پارلیمنٹ ہی قانون سازی کر سکتی ہے ٗ ۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی تحریک سے بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے ٗپاکستان کو افغانستان کے اندر حملوں کا الزام نہیں دیا جاسکتا ٗافغان مہاجرین کی وطن واپسی افغانستان کے اندرونی مسائل کے حل سے منسلک ہے جسے دیانتداری سے حل کیا جانا چاہئے۔

گزشتہ روز نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویومیں وزیراعظم نے کہا کہ آئین اظہار رائے کا حق دیتا ہے اور کسی کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا تاہم جو کچھ عمران خان نے پارلیمنٹ سے متعلق کہا وہ درست نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ دوسری جانب سابق وزیراعظم محمد نوازشریف عدلیہ کے فیصلے سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے لیکن انہوں نے کسی ادارے کو گالی نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک میں جمہوری نظام پنپ چکا ہے اور پاکستان میں یہ نظام ابھی تک فروغ پارہا ہے جس میں مختلف اداروں کو اپنا مخصوص کردار اور حق ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر پاکستان میں جمہوری عمل کا تسلسل برقرار رہا ہوتا تو ایسی چیزیں نہ ہوتیں جو ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے بھی غیر آئینی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت ایسوسی ایشن بنانا ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو مقدمے کے فیصلے کا اختیار ہے‘ سابق وزیراعظم کے خلاف فیصلے پر عملدرآمد کیا گیا لیکن عوام نے اسے قبول نہیں کیا اور نہ ہی تاریخ اسے قبول کرے گی۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے بہت سے فیصلے ہیں جنہیں قبول نہیں کیا گیا ٗبھٹو کے کیس میں 2 ججوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے دباؤ کے تحت فیصلہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا تاہم ایسے فیصلے مثال نہیں بن سکتے اور ان پر بحث ہوتی رہے گی۔

حکومت سے متعلق تنقید سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے برسراقتدار لوگ ہمیشہ مخالفین کی تنقید کے نشانے پر ہوتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ زینب کا واقعہ انتہائی اذیت ناک سانحہ تھا تاہم بدقسمتی سے افسوسناک بات ہے کہ سیاستدانوں نے ایک کریمنل مسئلہ پر بھی سیاست چکمائی۔

انہوں نے کہا کہ مقدمہ کی تفتیش میں انہیں پنجاب حکومت کی پیش رفت پر اطمینان ہے۔ مجرم کو پکڑنے کیلئے کوششیں جاری ہیں اور حکومت مجرم کو قانون کے کٹہرے میں جلد لانے کیلئے پرامید ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم قصور کے عوام کی تکلیف اور غم و غصے کو سمجھتے ہیں تاہم کوئی بھی ملک کا قانون سرعام پھانسی کی اجازت نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون سے تجاوز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ واحد فورم ہے جو قانون سازی کرسکتا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں اور دستیاب وسائل اور کوششوں کے باوجود وہاں بھی ایسے مجرموں کو پکڑنے میں عرصہ لگ جاتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پولیس فورس اس کے ساتھ ساتھ دھرنے، امن اومان کی صورتحال جیسے امور سے نمٹنے میں بھی مصروف رہی ہے ٗصوبائی معاملات ہمیشہ صوبائی حکومتوں نے دیکھنا ہوتے ہیں جس کی آئین نے واضح طور پر وضاحت کردی ہے اور وفاقی حکومت اس میں کوئی مداخلت نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی بحران آتے رہتے ہیں لیکن انہیں صوبائی سطح ہو یا مرکزی سطح پر جمہوری انداز میں ہی لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کے منتخب اراکین کے جمہوری حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم جو کچھ انہوں نے کہا اس کا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

بھارتی دھمیکوں سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی تحریک سے بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مذاکرات کا عمل بنیادی ایشوز کے حل تک ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا عمل سنجیدگی سے ہونا چاہئے کسی دباؤ کے تحت نہیں۔ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے 30 لاکھ سے زائد مہاجرین کی میزبانی کی اور یہ بوجھ افغان مسئلے کے حل کیلئے برداشت کیا۔

انہوں نے زور دیا کہ دنیا کو اور افغانستان کو اس کی تعریف کرنی چاہئے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کو افغانستان کے اندر حملوں کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی افغانستان کے اندرونی مسائل کے حل سے منسلک ہے جسے دیانتداری سے حل کیا جانا چاہئے۔

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ یہ عمل جاری رہے گا جنگ افغانستان کے مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلہ کو افغان قیادت کی اپنی نگرانی میں مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور دیگر ممالک بطور سہولت کار کردار ادا کرسکتے ہیں۔