فیفا ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل سابق عالمی چیمپئن انگلینڈ اور کروشیا کے مابین ماسکوکے لوزنکی اسٹیڈیم میں آج کھیلا جائے گا ۔ باصلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں کا یہ میچ ناصرف دنیا بھر میں شائقین فٹبال کی توجہ کا مرکز ہے کیونکہ دونوں ٹیمیں طویل عرصے کے بعد اس مرحلے تک پہنچی ہیں۔ دونوں ملکوں کا یہ سیمی فائنل میچ کانٹے کا ہوگا ۔
کروشیا اورا نگلینڈ 9 سال کے بعد کسی فٹبال میچ میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ۔ انگلینڈ کی ٹیم میں زیادہ تر نوجوان فٹبالرز شامل ہیں اور تمام انگلش کھلاڑی اپنے ملک میں مختلف فٹبال کلبس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ورلڈ کپ میں انگلینڈ واحد ٹیم ہے جس کا کوئی فٹبالر بیرون ملک لیگ میں حصہ نہیں لیتا۔
اس کے مد مقابل کروشیا کی 23 رکنی ٹیم میں 14 ایسے فٹ بالرز ہیں جو یورپ کے پانچ ممالک جرمنی‘ انگلینڈ ‘اسپین ‘اٹلی اور فرانس کی فٹبال لیگز میں مختلف فٹبال کلبس کی جانب سے کھیلتے ہیں ۔ کوارٹر فائنل میں انگلش مینجر گاریتھ ساؤتھ گیٹ کی ٹیم نے سویڈن کو 2-0 سے زیر کیا تھا جبکہ کوارٹر فائنل میں کروشیا نے مقررہ اور اضافی وقت میں مقابلہ 2-2 سے برابر ہونے کے بعد روس کو پنالٹی ککس پر 4-3 سے شکست دی تھی۔
دونوں ٹیموں نے ورلڈکپ گروپ اور ناک آوٹ مراحل میں اچھی کارکردگی پیش کی ہے۔ کروشیا کویہ سبقت حاصل ہے کہ ٹیم ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہی ہے اور اس نے ناک آؤٹ مرحلے کے دونوں میچزپنالٹی شوٹ آؤٹ پر جیتے ۔ گزشتہ چھ دنوں میں کروشیا کے فٹبالرز 240 منٹ فٹبال گراؤنڈمیں دوڑتے رہے۔
ناک ؤٹ مرحلے کے ان دونوں میچز میں کروشیا کے گول کیپر سباسچ ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گو روس کیخلاف اضافی وقت میں ان کے زخمی ہونے پر تشویش کی لہر ڈوڑ گئی تھی کہ اگر معاملہ پنالٹی ککس پر گیا تو مشکل ہو سکتی ہے لیکن آہنی اعصاب کے مالک سباسچ نے چوٹ کی پروا نہیں کی اور طبی امداد کے بعد ناصرف میچ کھیلا بلکہ پنالٹی ککس میں اپنی ٹیم کو ایک بارپھر کامیابی سے ہمکنارکرکے سیمی فائنل میں پہنچانے کا کارنامہ انجام دیا۔
فٹبال ورلڈ کپ کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع تھا کہ کوئی فٹبال ٹیم پنالٹی ککس کے مرحلے میں دو میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ 1990 کے ورلڈ کپ میں ارجنٹینا نے بھی دو میچز پنالٹی شوٹ آؤٹ پر جیتے تھے۔ انگلش فٹبال ٹیم رواں ورلڈ کپ کے ٹاپ اسکورر ہیری کین کی قیادت میں کروشیا کے خلاف صف آرا ہوگی۔
انگلینڈ کی ٹیم کو گروپ مرحلے میں بلجیئم کے ہاتھوں1-0 سے شکست کا سامناکرنا پڑا تھا۔انگلش ٹیم میں شامل رحیم اسٹرلنگ ‘ جیمی ورڈی‘ ڈیلی ایلی‘جارڈن ہینڈرسن ‘ جیسی لنگارڈ‘ہیری میگوائر‘مارکوس ریشفورڈ‘ ایشلے ینگ‘فیبیان ڈالف اور دیگر باصلاحیت فٹبالرز موجود ہیں جو کروشیا کی ٹیم کے مضبوط دفاعی حصار کو توڑ سکتے ہیں ۔
انگلش ٹیم کو کروشیا پر یہ ایڈوانٹیج حاصل ہو گا کہ اس کے زیادہ تر کھلاڑی نوجوان ہیں اس کے مقابلے میں کروشیا کی ٹیم میں تجربہ کار کھلاڑی ہیں جن میں سے بیشتر کی عمر 30 سال سے زائد ہے۔
کروشیاکی ٹیم میں شامل سباسچ لوکا موڈرچ‘ ویڈا ‘ مینڈزوکچ‘ ایان رکیٹچ‘جوزف پیورزچ ‘ ایوان پریسیچ ‘ میٹیو کوواچچ‘ مارسیلو بروزوچ ‘آندرے کرامزچ ‘ لوورن اور ان کے دیگر ساتھی انگلینڈ کے توجوان کھلاڑیوں کو 1966ء کے بعد پھر سے فائنل میں رسائی سے روکنے اور اپنے ملک کوپہلی بار گولڈن ٹرافی سے ایک قدم قریب کرنے کیلئے اپنی تما م صلاحیتوں کو استعمال کریں گے۔ کروشیا کے کپتان لوکا موڈرچ اس سیمی فائنل میں مرکزی اہمیت کے حامل ہوں گے۔
وہ دنیائے فٹبال کے بہترین مڈ فیلڈر گردانے جاتے ہیں اور انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں ان کا کردار بہت اہم ہوگا۔ وہ دفاع کے ساتھ اٹیکنگ کی تباہ کن صلاحیت رکھتے ہیں وہ فری کک اسپیشلٹ ہیں ۔ حال ہی میں ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ نے یوایفا کپ جیتا جس میں لوکا موڈرچ کا نمایاں کردار تھا۔
وہ کرسٹیانو رونالڈو ٹونی کروس مارسیلو کے ساتھ ملکرحریف ٹیموں کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوئے۔ لوکا موڈرچ انگلش فٹبال کلب ٹوٹنہیم کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں ،ان کے ٹوٹنہیم کے سابق ساتھی جرمین جوناس کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے کیریئر میں بہت سے فٹبالرز کو دیکھا اور ان سے ملا لیکن موڈرچ جیسے باصلاحیت کھلاڑی بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں جنہوں نے کم عرصے میں اپنے کھیل کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور شہرت حاصل کی۔
جرمین کا کہنا ہے میں نے پہلی بار موڈرچ کو زغرب میں یورپیئن چیمپئن شپ کوالیفائر 2008 ء میں انگلینڈ کے خلاف کھیلتے دیکھا تھا جس میں کروشیا نے انگلینڈ کو 2-0 سے ہرا دیا تھا۔اس وقت لوکاموڈوچ کی عمر بمشکل 20سال تھی۔ اس کی صلاحیتوں کو دیکھ کر ٹوٹنہیم نے اس کے ساتھ معاہدے کیلئے بات چیت شروع کی اوراس نے 2008 ء میں کلب جوائن کر لیا۔
موڈرچ میں آخری دم تک لڑنے کی صلاحیت ہے وہ کبھی حوصلہ نہیں ہارتا اور اس کا مائنڈ سیٹ صرف جیت کا ہے اسی وجہ سے وہ کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے ناصرف خود گراؤنڈ میں محنت کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ موڈرچ انتہائی کری ایٹیو ہے اور وہ اپنے کھیل کے ذریعے اپنی ٹیم کو مخالف ٹیم پر کنٹرول حاصل کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ جوناس کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کو کروشیا کو فائنل میں رسائی سے اگر روکنا ہے تو پھر اسے لوکا موڈرچ پر کڑی نظر رکھنا پڑے گی اوراس کے سامنے سخت حصار بنانا ہوگا ۔
انگلینڈ اورکروشیا کے فٹبال میچز کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے ۔ کروشیا نے 1990 میں یوگوسلاویہ سے آزادی حاصل کی تھی اور اس نے 1994 ء کے ورلڈ کپ میں حصہ نہیں لیا تھا ۔
مگر 45 لاکھ آبادی والے اس ملک کروشیا نے انتہائی کم عرصے میں فٹبال کے باصلاحیت کھلاڑیوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جس نے یورپ سے 1998 ء کے ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کیا اور پھر فرانس میں ہونے والے مقابلوں میں اس کے فٹبالرز نے ایسی غیر معمولی کارکردگی پیش کی جس پر فٹبال کے شائقین انگشت بدنداں رہ گئے ۔ کروشیا کی ٹیم نے ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی کی جہاں اسے فرانس نے زیر کیا ۔
1998 کے ورلڈ کپ میں گولڈن شو کا اعراز جیتنے والے کروشین فٹبالر ڈیور سوکر اب کروشیا فٹبال ایسوسی ایشن کے صدر ہیں اور ورلڈ کپ میچز میں ٹیم کی حوصلہ افزائی کیلئے روس میں موجود ہیں ۔ رواں ورلڈ کپ میں کروشین فٹبالر لوکا موڈرچ کی زیر قیادت اپنا غیر معمولی کھیل پیش کر رہے ہیں اور اب انہیں انگلینڈ کے سامنے کڑے امتحان کا سامنا ہے۔
انگلینڈ اور کروشیا کے مابین کل سات میچر کھیلے گئے ہیں جن میں انگلینڈ نے چار میں کامیابی حاصل کی اور دو میچز میں فتح کروشیا کا مقدر بنی۔ ایک میچ ڈرا ہوا۔ دونوں ملکوں کا پہلامیچ 24 اپریل 1996 ء کو ویمبلے اسٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا جو بغیر کسی گول کے برابرر رہا تھا۔
2003 ء میں انگلینڈ نے انٹرنیشنل میچ میں کروشیا کو 1-0 سے زیر کیا۔ انگلینڈ نے 2004 کے یور کپ میں کروشیا کو 4-2 سے شکست دی تھی جس میں انگلش اسٹرائیکر ویان رونی نے دو گول کیے تھے۔ 2006 میں زغرب میں کھیل گیا میچ 1-1 سے برابر رہا۔
کروشیا کے کھلاڑی گیری نوویل نے اون گول کر دیا تھا جو برابری کا سبب بنا ۔ 2007 ء میں ویمبلے اسٹیڈیم میں کروشیا نے انگلینڈ کو یوایفا گروپ ای کے میچ میں 3-1 سے زیر کیا تھا جس کے نتیجے میں انگلینڈ فائنلز کیلئے کوالیفائی نہیں کر سکا تھا۔ اس کے بعد انگلینڈ نے ورلڈ کپ 2010 ء کیلئے کوالیفائنگ راؤنڈ میچز میں انگلینڈ نے کروشیا کو ستمبر 2008 میں 4-1 اور ستمبر 2009 ء میں 5-1 کے بڑے مارجن سے ہرا کر بدلہ لے لیا تھا۔
انگلینڈ کے مینجر گاریتھ ساؤتھ گیٹ کا کہنا ہے کہ ہم اپنی اس ٹیم کو ورلڈ کپ میں فتح کے ذریعے شہرت کی نئی بلندیوں تک لے جائیں گے کیونکہ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کیاس دور میں فٹبال کے کھیل کی پہنچ دنیا کے ہرگوشے میں ہے جو کہ 1966 ء میں نہیں تھی۔ ساؤتھ گیٹ کا کہنا ہے کہ ہماری نوجوان ٹیم نے اب تک توقعات سے زیادہ اچھا رزلٹ دیا ہے اب ہمارے سامنے ایک سخت جاں حریف ہے جس میں تجربہ کار اور انتہائی باصلاحیت فٹبالرز موجود ہیں ۔
ہماری کھلاڑی اس تجربہ کار ٹیم کے سامنے بھی اپنی اچھی کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ دوسری جانب کروشیا کے کپتان لوکا موڈرچ کا کہنا ہے کہ میری اور ساتھیوں کی نظریں سنہری ٹرافی پر جمی ہیں۔
بیلون ڈی آر میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا میں صرف جیت پر نظر رکھتا ہوں۔ ہماری کامیاباں ٹیم ورک کا نتیجہ ہیں اور سباسچ نے ہمارے لیے ہیرو کا کردار ادا کیا ہے۔ انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں ہم ٹورنامنٹ میں اپنے ناقابل شکست ہونے کے ریکارڈ کو برقراررکھنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لائیں گے۔