اسلام آباد: اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود آبادی فنڈ نے دعویٰ کیا ہے پاکستان میں سالانہ دو لاکھ سے زائد خواتین اسقاط حمل کرواتی ہیں جس کی بنیادی وجہ زچہ کا مانع حمل ادویات تک رسائی نہ ہونا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ بہبود آبادی فنڈ (UNFPA ) نے پاکستان میں کیے گئے اپنے حالیہ سروے کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ سروے کے اعداد وشمار کے مطابق سالانہ 2 لاکھ سے زائد خواتین اسقاط حمل کرواتی ہیں اور تقریباً تمام ہی اسقاط حمل خفیہ طور پر مگر رضامندی سے کروائے جاتے ہیں۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ اسقاط حمل کے لیے ناکافی سہولیات اور تجربہ کار اسٹاف نہ ہونے کے باعث اس عمل کے دوران خواتین کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق رہتا ہے جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 6 لاکھ 30 ہزار خواتین نا تجربہ کار اسٹاف سے اسقاط حمل کرنے کے باعث پیچیدگیوں کا شکار ہوگئیں۔
بہبود آبادی کے ادارے (NIPS) کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ شیراز نے سروے سے متعلق میڈیا کو بتایا کہ ملک بھر سے 580 مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی 16 ہزار 2 سو 40 گھرانوں کی خواتین کو شامل کیا گیا۔ سروے سے پتا چلا کہ پاکستان میں اوسطاً ایک خاتون 3.6 بچوں کو جنم دیتی ہے جب کہ یہ تناسب شہری علاقوں میں 2.9 اور دیہی علاقوں میں 3.9 ہے، 1990ء کے سروے کے مطابق پاکستان میں فی عورت 5.4 بچوں کو جنم دیا کرتی تھی۔
اسقاط حمل کے بڑھتے واقعات کی وجہ مانع حمل ادویات تک عام خواتین کی رسائی نہ ہونا ہے اور صوبہ بلوچستان میں مانع حمل ادویات کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ غربت اور آگاہی کا فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں حاملہ خواتین کے پاس اسقاط حمل کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں رہتا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں زچہ و بچہ کی صحت سے متعلق سہولیات کا فقدان ہے۔ رواں برس کے اوائل میں یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں پیدائش کے ایک ماہ سے کم عرصے میں 1 ہزار بچوں میں سے 46 بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔