|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2018

اسلام آباد: پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد خان نے سینیٹ میں بلوچستان کو مکمل حقوق فراہم کرنے کی یقین دہائی کروائی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت بلوچستان کی محرومیاں دور کرکے ملازمتوں کے کوٹہ سمیت دیگر محرومیوں کا ازالہ کرے گی۔ سینیٹ میں سینیٹر محمد اکرم کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ صوبہ بلوچستان کو طے شدہ کوٹہ کے مطابق ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔

انہوں نے سینیٹ کو بتایا کہ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت 13 ہزار 118 میں سے 9 ہزار 23 اسامیوں پر بھرتیاں کی جا چکی ہے، جبکہ چار ہزار کے قریب اسامیوں پر بھرتی ہونا باقی ہے جس کے بعد بلوچستان کے کوٹہ پر عمل ہو جائے گا۔

گزشتہ روز( بدھ) کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر محمد اکرم کے توجہ مبذول نوٹس پر وضاحت پیش کرتے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ موجودہ حکومت بلوچستان کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے کام کررہی ہے۔ بلوچستان کو ماضی میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ، البتہ ہم محرومیوں کا ازالہ کریں۔

انہوں نے ایوان بالا کو بتایا کہ بلوچستان کے کوٹہ سے متعلق حقائق کی درستگی ضروری ہے ، بلوچستان کے کوٹہ کے تحت 17 ہزار 270 پوسٹیں خالی نہیں ہیں۔ 2007ء میں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان کا کوٹہ تین سے بڑھا کر 6 فیصد کیا گیا۔ جن میں سے4.36 فیصد کوٹہ پر بھرتیاں ہو چکی ہیں۔

اس کے تحت 13 ہزار 118 پوسٹوں کی نشاندہی کی گئی۔ 9 ہزار 23 پر بھرتی ہو چکی ہے، 4 ہزار سے زائد پر بھرتی ہونا ہے۔ یہ ہونے سے بلوچستان کے کوٹے پر عمل ہو جائے گا۔ انہوں نے دیگر صوبوں کے کوٹہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پنجاب کا کوٹہ 50 فیصد، سندھ کا 19 فیصد، کے پی کے کا 11.5 فیصد، بلوچستان کا 6 فیصد، فاٹا کا 4 فیصد اور آزاد کشمیر کا 2 فیصد کوٹہ ہے۔ گریڈ 22 میں بلوچستان سے 4 آفیسرز ہیں۔ کے پی کے سے 22، سندھ سے 8، پنجاب سے 63 ہیں۔

نئی حکومت بھرپور کوشش کرے گی کہ بلوچستان کو اس کے حصے اور کوٹے کے مطابق ملازمتیں اور اسامیاں ملیں۔ چیئرمین سینیٹ نے سینیٹر محمد اکرم کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس کے معاملہ کو متعلقہ کمیٹی کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی کہ اس معاملے کو سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔

سینیٹر محمد اکرم نے توجہ دلاؤ نوٹس پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں بلوچستان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، بلوچستان کی وفاق میں 17 ہزار اسامیاں خالی ہیں جو پُر ہیں، ان پر بھی شکوک و شبہات ہیں، جہاں آبادی کم اور رقبہ زیادہ ہو وسائل بھی ہوں وہاں خوشحالی ہوتی ہے لیکن بلوچستان کے کیس میں ایسا نہیں، معدنی ذخائر، زرعی وسائل اور طویل ساحل کے باوجود صوبہ محروم کیوں ہے۔

بلوچستان میں مواقع کے ساتھ نئے تنازعات بھی ابھر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن جماعتوں کے دیگر ارکان نے وزیر خزانہ اسد عمر عدم موجودگی پر سینیٹ میں احتجاج کیا۔

بدھ کو ہونے والے اجلاس کے دوران سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ بجٹ پر بحث پر بات کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ وزیر ہی موجود نہیں ہیں۔ جس پر قائد ایوان نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ وزراء جلد ایوان میں پہنچ جائیں گے، گزشتہ پانچ سال بھی پارلیمانی امور کے وزیر ہی ایوان میں ہوتے تھے، آج بھی ہمارے پارلیمانی امور کے وزیر موجود ہیں۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ جو نعرے لگاتے تھے آج ان کا کام بھی دیکھ لیا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے آبی قلت کو تفویض کئے گئے دو مختلف امور پر کمیٹی کی رپورٹیں پیش کرنے کے لئے مزید 60 یوم کا وقت دے دیا۔ اجلاس کے دوران کمیٹی کے کنوینر سینیٹر مولا بخش نے پانی کی صفائی کے پلانٹس کی ضرورت کے حوالے سے سینیٹر شیری رحمان کی تحریک اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کی طرف سے پانی کی قلت سے متعلق تحریک پر کمیٹی کی رپورٹیں پیش کرنے کے لئے مزید 60 یوم کا وقت مانگا جس پر چیئرمین نے کمیٹی کو مزید وقت دینے کی منظوری دے دی۔

ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ ضمنی بجٹ سے مہنگائی بڑھے گی، معیشت تباہ حال حالت میں ملی، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہوگا، ملک کو چلانے کے لئے ٹیکس کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے جو بجٹ دیا تھا وہ الیکشن کے لئے تھا، پھر بھی عوام نے ووٹ نہیں دیئے۔ بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں ضمنی مالیاتی بل 2018ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ضمنی بجٹ میں کارپوریٹ ورلڈ کو فروغ دینے کے اقدامات کئے گئے جس سے کرپشن کو فروغ ملے گا۔

موجودہ حکومت نے فائلرز اور نان فائلرز کا فرق ختم کر دیا گیااور بلیک منی کو تحفظ دیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے چار منصوبے اور گوادر کے 12 منصوبے ختم کر دیئے گئے ہیں۔ چترال کو ہم نے سی پیک میں خود شامل کرایا تھا کیونکہ یہ چار ممالک کا سنگم ہے، وہ بھی سی پیک سے نکال دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی وزارت پر 88 فیصد کٹ لگایا گیا ہے، یہ بجٹ پاکستان کو نقصان پہنچائے گا، ماضی میں جن کاموں پر تنقید کرتے تھے وہی کیا گیا۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ پی ٹی آئی کہتی تھی کہ وہ اقتدار میں آ کر بڑی تبدیلیاں کرے گی، عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے، مسلم لیگ (ن) نے پانچ سالوں میں گیس کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ نہیں کیا، عوام کو توقع تھی کہ ٹیکسوں کا بوجھ کم ہوگا، 178 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگایا گیا، 305 ارب کی ترقیاتی سکیمیں اور منصوبے ختم کر دیئے گئے ہیں، ہم نے جو سبسڈیز دی تھیں ان میں سے کئی واپس لے لی ہیں، اس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔

یہ اقدامات آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لئے کئے گئے ہیں۔ یہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر رہے ہیں حالانکہ وزیراعظم نے اس کے برعکس اعلان کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملک میں بہت بڑی سرمایہ کاری لے کر آئی کیونکہ ہم نے ملک میں امن قائم کیا اور سرمایہ کاری کے لئے بہترین ماحول فراہم کیا اور لوڈ شیڈنگ ختم کی۔

انہوں نے کہا کہ جس ڈیم کے لئے آج چندہ جمع کیا جا رہا ہے ہم نے اس کے لئے 119 ارب روپے دیئے اور کام شروع کرایا، ہم نے اس بجٹ میں بھی اس کے لئے خطیر رقم رکھی جس میں موجودہ حکومت ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لیا جائے اور عام آدمی کے لئے سبسڈی بحال کریں۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بلوچستان سے ہم سب کچھ لینے کے لئے تیار ہیں لیکن صوبے کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں۔ بلوچستان میں بجلی ہے، نہ گیس، آواران میں زلزلہ سے تباہی ہوئی تو بین الاقوامی امدادی اداروں کو بلوچستان کی حکومت کی درخواست کے باوجود آنے دیا گیا۔ پاک چین دوستی میں جو دراڑ پڑی ہے وہ مزید وسیع ہو گئی۔ کس کے کہنے پر سعودی عرب کو پیشکش کی گئی۔

بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں پر کام بند ہے، نولانگ ڈیم پر دس سال سے کام بند پڑا ہے۔ چھوٹے ڈیمز پر کام کیا جائے۔ بجٹ عوام دوست ہونا چاہئے تھا، جو وعدے ہم سے کئے گئے ہیں پورے کئے جائیں۔ وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے جو تجاویز دی ہیں ہم وزیر خزانہ کے ساتھ مل بیٹھ کر ان پر بات کریں گے۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ تین صوبوں اور وفاق کی حکومت پی ٹی آئی نے سنبھال لی ہے، یہ حکومت تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئی ہے، سی پیک کے منصوبوں پر کٹ لگایا گیا ہے، ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ بجٹ کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، ہمیں معیشت ایسی حالت میں ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اقتصادی اعداد و شمار نہیں تھے۔ نصیب اﷲ بازوئی نے کہا کہ ملک جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں رہا ہے، حکومت کو چلنے دیا جائے اور دیکھا جائے کہ یہ کیا کرتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، صوبے کو امن، تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتوں کی ضرورت ہے، ہمارے صوبے میں لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں ہے، اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کو خبردار کرتا ہوں کہ بلوچستان کے مسائل پر توجہ دیں، پاکستان چار اکائیوں کا نام ہے۔