|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2018

ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی انتخابات اور حکومت سازی کے مراحل طے ہوئے تو امتحان کا مرحلہ شروع ہوا۔ کرپشن ، بیروزگاری اور اقرباء پروری کے خاتمے کے ساتھ بلا امتیاز خدمت بھی انتخابی وعدوں کا حصہ رہی ۔اب جمہوریت کے ناتواں کندھوں پر قانون سازی سے لے کر انسانی ترقی تک کا بارِگراں آن پڑا ہے تو اس سے عہدہ براء ہونے کا قابلِ عمل منصوبہ بھی یقیناَ اربابِ اختیار کے پاس ہو گا۔

قدرتی وسائل کے اعتبار سے امیر ترین اور دستیاب وسائل کے حوالے سے غریب ترین بلوچستان جہاں سی پیک نامی منہ زور گھوڑے کی رکابیں تھامنے کی خواہش رکھتا ہے ، ساحل و وسائل پر اختیارجیسے دیوانے کا خواب بنتا ہے، عمومی عزتِ نفس کی بحالی کا تقاضہ کرتا ہے، جیون برتنے کی آس لیئے پھرتا ہے، وہیں جیون بِتانے کے لوازمات کی امید بھی رکھتا ہے۔کچھ معاملات محض خواہشات ہو سکتی ہیں ، کچھ معاملات میں صوبائی حکومت بے بس ہو سکتی ہے، چند ایک معاملات بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری میں شامل ہو سکتی ہیں اور کچھ معاملات کا نتیجہ شاید دہائیوں بعد سامنے آئے لیکن تعلیم اور صحت سے منسوب معمولی سے مسائل، نہ صرف فوری حل طلب ہیں بلکہ ان کا حل صوبائی حکومت کی ذمہ داری بھی ہے تو اس کے حلقہ اختیار میں بھی، بس ضرورت ہے تو اخلاص اور جامع منصوبہ بندی کی۔

دورِ حاضر میں بلوچستان ہی واحد پولیو زدہ صوبہ ہے ، یہاں کینسر کا کوئی ہسپتال سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا ، گردوں کے امراض کا واحد ہسپتال ناکافی سہولیات اور غیر ذمہ دارعملے کی بناء پر ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی مہلک امراض کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن چکا، دل اور جگر کے امراض شاید شاعرانہ تصرف کا سند سمجھے جاتے ہیں اس لیئے ان پر توجہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی، جبکہ کوئٹہ شہر کو چھوڑ کر صوبے کے 32 اضلاع میں معمولی جراحی تک کی سہولت نا پید ہے۔ صحت کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کا بندوبست اب تک کتابی تصور ہی ہے۔

پچھلے ایک دہائی کا صوبائی اسمبلی کے ممبران کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجیے کسی نے بھی بلوچستان کے کسی ہسپتال سے اپنا علاج نہیں کروایا ، جو کہ صوبہ بھر میں ڈاکٹرز کی شدید کمی کی مستند دلیل ہے، صوبائی حکومت کی زیرِ سرپرستی واحد میڈ یکل کالج پر تکیہ شبنم کے قطروں سے دریا کا پیاس بجھانے کی حسرت ہی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں عطائی ڈاکٹرز کا گلی کوچوں میں سرایت کر جانا اچھنبے کی بات نہیں اور بنیادی اسباب کا خاتمہ کیئے بغیر موت کے ان سوداگروں سے نمٹنا ناممکن ہے۔

معیاری ادویات کی فراہمی اور جعلی ادویات کی روک تھام کے شعبے کی افادیت کا اندازہ لگانے کے لیئے یہی کافی ہے کہ گزشتہ سال تک بلوچستان میں مستقل ڈرگ کورٹ قائم نہیں ہو پائی تھی، پالیسی بورڈ میں بلوچستان کی نمائندگی ایک ریٹائرڈ پروفیسر کو تفویض کی گئی ہے، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں بلوچستان کا کوئی نمائندہ سرے سے ہے ہی نہیں، چیف ڈرگ انسپکٹر کا ادارہ غیر فعال ہے اور ڈرگ کورٹ میں صوبائی حکومت کا لاء آفیسر بنفسِ نفیس ادویات کے کاروبار سے وابستہ ہے ، ایسے میں دوا کے نام پر زہر بیچنا مافیاز کا حق بنتا ہے کیونکہ بے حس معاشروں میں منافع انسانی اقدار سے بہر طور بلند مقام رکھتا ہے۔

بلوچستان میں جہاں شعبہ صحت کی مجموعی صورتحال مسیحائی کی منتظر ہے ، وہیں تعلیم کا شعبہ بھی مفلوج ہی ہے۔صوبے میں رائج نظامِ تعلیم کی انوکھی ترکیب شاید کسی کو سمجھ آ پائے ، مدرس اور منتظم الگ الگ یونینز بنا کرمراعات کی مذموم جنگ میں ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے میں مصروف ہیں ، نگرانی کا عملہ غیر سرکاری اداروں کے رحم و کرم پر ہے اور امتحانی عملہ قرعہ اندازی کا محتاج۔ اساتذہ کی تربیت کا ادارہ تجربہ گاہ بنا رہتا ہے ، جبکہ نصابیات کے شعبے میں متعین ریسرچ آفیسرز کے جمِ غفیر کو ابھی تک فرائضِ منصبی کی تفصیلات ملی ہی نہیں ہیں، نصاب کی تیاری ایک زمانے سے صوبائی معاملہ بننے کے باوجود ابتدائی مراحل سے آگے نہیں بڑھ پاتی ، درسی کتب تو ماشاء اللہ ٹھیکیداری کی بھینٹ چڑھ چکے۔ اصلاحات کے نام پر محض اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا رہا۔ درس گاہوں میں فراہم کردہ سہولیات کا جائزہ نہ ہی لیا جائے تو مناسب ہوگا جبکہ ذمہ دار حلقے ہیں کہ تبادلوں ، تقرریوں اور نظام کے سقم کا رونا روتے ہیں۔

نجی شعبے میں ایک آدھ ادارے کو چھوڑ کر ، معاشرے کے بے روزگار و غیر کارآمد طبقے کی جانب سے ایک طوفانِ بد تمیزی بپا ہے۔ دڑبہ نما دانش کدے،ہر گلی ہر محلے میں علم و نور کے نام پر جہالت کے بیوپاری بن بیٹھے ہیں۔ درس و تدریس کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ رجسٹریشن و ریگولیٹری اتھارٹیز وجود تو رکھتی ہیں لیکن عملہ ندارد۔ حد تو یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے پاس کسی بھی نجی اسکول کا مکمل پروفائل تو اپنی جگہ بنیادی عمارت تک کا نقشہ موجود نہیں۔

مسیحائی کا روپ دھارے ، موت کے سوداگروں سے نجات ، دوا کے نام پر بکتا زہر، اور دڑبے نما دانش کدوں کا سدِ باب اگر ممکن ہو پایا تو یقین مانیے یہ حکومت اس دہائی کی کامیاب ترین حکومتوں میں شمار ہو گی۔