|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2018

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان عالیانی نے کہا ہے کہ حکومت لائیواسٹاک کے شعبے کی بہتری کیلئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائی گی بلوچستان کا مستقبل لائیو اسٹاک اورزراعت کے شعبے سے جڑا ہوا ہے زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو بچانے اور پانی کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو بلوچستان کو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا پی ایس ڈی پی کے اربوں روپے کے فنڈ سڑک، عمارتوں پر خرچ کر کے ضائع کئے گئے اگر یہ فنڈز لائیواسٹاک یا دوسرے شعبوں پر خرچ کئے جاتے تو بلوچستان کی صورتحال اور نقشہ آج سے مختلف ہوتا ان خیالات کا اظہار انہوں جمعرات کو بوائے اسکاوٹس میں پہلے انیمل ڈے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر صوبائی مشیر لائیو اسٹاک حاجی مٹھا خان کاکڑ ،ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر خان موسیٰ خیل اراکین صوبائی اسمبلی حاجی محمد خان لہڑی،مبین احمد خان خلجی ،سیکرٹری لائیواسٹاک ڈاکٹر محمد اکبر حریفال،ڈی جی لائیو اسٹاک ،ڈاکٹر شاہ نوازسینئر منیجر ڈاکٹر عبدالباری بی آرایس پی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ لائیواسٹاک کا شعبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آج پانی اور قحط بات ہورہی ہے کیونکہ پانی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نا ممکن ہے آج دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک میں بھی پانی کا مسئلہ زیر بحث ہے اور بلوچستان میں زیر پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے اگر ہم نے اس پر توجہ نہ دی اور ہائیواسٹاک سمیت زراعت کے شعبے کو اکٹھے کر کے پانی کی بچت نہ کی تو آنے والے وقتوں میں ہمارے لئے بڑا مسئلہ ہوگا۔اب لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اس کے حل کیلئے کام کریں اور جو بھی پالیسیاں بنائی جائے انہیں زمینی حقائق اور صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے بنا یا جائے اگر ہم نے توجہ نہ دی تو پانی بہت کم رہ جائے گا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کامستقبل تین شعبوں سے وابستہ ہے جس میں مائننگ ،فشریز،لائیواسٹاک سے جھڑا ہوا ہے ان شعبوں کو بہتر کر کے زندگی کو سہل بنا یا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ آج عرب امارات اور گلف میں ملتان ،رحیم یار خان اور بہاولپور سے تازہ حلال کے نام سے گوشت اور میٹ جارہا ہے جس سے دنیا بھر میں اس شعبے سے 30ارب ڈالر کمایا جارہا ہے جبکہ ہمارے ملک سے جانے والے اس حلال میٹ کی مد میں تقریبا 250ملین ڈالر مل رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ذمہ داروں اور لائیو اسٹاک کے شعبے سے وابسطہ لوگوں کو اس پر وجہ دینے چاہیے حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر اس پر کام کریں اس وقت بلوچستان میں ایک کروڑ بیس لاکھ جانور جو کہ بلوچستان سے 47 فیصد اور ملک میں 11فیصد حصہ رکھتے ہیں جن کی مالیت تقریبا 500سو ارب روپے بنتے ہیں مشیر لائیواسٹاک اس شعبے کو مزید بہتر بنانے کیلئے سیمینار اور ورکشاپ منعقد کریں تاکہ لوگوں کو آگے بڑھنے کیلئے حکومت مواقع فراہم کریں۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس شعبے کو نظر انداز کیا گیا اگر اس پر توجہ دے کر فنڈز خرچ کئے جاتے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس سے لوگوں کو فائد پہنچتا پی ایس ڈی پی کے فنڈز امارتوں سڑک اور دیگر مدات پر خرچ کر کے ضائع کئے گئے لائیو اسٹاک کے شعبے پر سرمایہ کاری کر کے اس سے دودھ ،گوشت،لیدر،اون،حاصل کر کے زیر مبادلا کمایا جاسکتا ہے اگر محکمے کے آفیسران اور عملہ شعبے کی بہتری کیلئے کام کرے گا تو ہم انہیں تمام سہولیات فراہم کرینگے اس موقع پر مشیر لائیواسٹاک حاجی مٹھا خان کاکڑ اور ڈی جی لائیواسٹاک کے شعبے کی بہتری پر ماضی میں کوئی کام نہیں ہواجس کی وجہ سے یہ شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے وزیراعلیٰ بلوچستان بے روزگار ویٹرنری ڈاکٹروں کیلئے اسامیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمین کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے فنڈز اوروسائل فراہم کرے اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے انیمیل ڈے کی مناسبت سے لگائے گئے سٹالز کا معاینہ بھی کیا،دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی ہدایت اور منظوری سے محکمہ زراعت وامداد باہمی نے شعبہ زراعت اور کاشتکاروں کو درپیش مسائل کا جائزہ لینے کے لئے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے، کمیٹی کے چیئرمین صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی ہیں جبکہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری، سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری زراعت، زمیندار ایکشن کمیٹی کا نمائندہ، صوبائی اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کا ایک ایک نمائندہ اور کمیٹی کی صوابدید پر کوئی بھی فردکمیٹی میں شامل ہیں جبکہ ڈپٹی سیکریٹری (ترقیات) محکمہ زراعت کمیٹی کے سیکریٹری ہوں گے۔ کمیٹی محکمہ زراعت اور کاشتکاروں کے مسائل کے حل کے لئے اپنی سفارشات فیصلے کرنے کے مجاز حکام کو پیش کرے گی، کمیٹی کا پہلا اجلاس 8اکتوبر بروز پیر ہوگا۔ دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان جو کہ بلوچستان انوائرمنٹل پروٹیکشن کونسل کے چیئرمین بھی ہیں نے کونسل کا پہلا اجلاس طلب کر لیا ہے جس کا انعقاد آئندہ چند دنوں میں کیا جائے گاجس میں ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق امور کا جائزہ لے کر صوبائی سطح پر موحولیاتی تحفظ کے حوالے سے جامعہ پالیسی مرتب کی جائے گی۔ محکمہ ماحولیات سے متعلق امور کے جائزہ اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ نے بلوچستان انوائر منٹل پروٹیکشن کونسل جیسے اہم فورم کی تشکیل کے باوجود تاحال کونسل کا اجلاس طلب نہ کئے جانے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اہم امور کو سنجیدگی سے نہ لینے کے باعث بہت سے مسائل پیدا ہوئے تاہم اب ہم تمام اداروں اور فورمز کو فعال کردار ادا کرنے کے لئے تیار کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ کونسل میں ماحولیات سے تعلق رکھنے والے اداروں کے وزراء کو بھی شامل کیا جائے تاکہ عوامی نمائندوں کی اس اہم کونسل میں شرکت سے ماحولیات کے حوالے سے سیاسی شعور بیدار ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ جو ادارے ریونیو حاصل کرتے ہیں انہیں خود انحصار بنانے کے لئے ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور اس حوالے سے ضروری قانون سازی کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں تمام شعبوں میں کام کرنے اور بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے اور یہ کام زیادہ مشکل بھی نہیں ہے صرف لگن اور خلوص کی ضرورت ہے۔اجلاس میں ریجنل سطح پر بلوچستان انوائرمنٹل ایجنسی کو وسعت دینے سے اتفاق کرتے ہوئے محکمہ ماحولیات کو اس سلسلے میں اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ محکمہ ماحولیات کی خالی آسامیوں پر اس شعبہ کے سپیشلائزڈامیدواروں جنہوں نے متعلقہ مضمون میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے کو ترجیح دی جائے گی جبکہ محکمہ ماحولیات کو وسعت دے کر اسے محکمہ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی بنایا جائے گا ۔اجلاس میں اس بات کا فیصلہ بھی کیا گیا کہ نجی و سرکاری شعبہ کے تمام ترقیاتی منصوبوں میں ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلوں کو مد نظر رکھنے کے لئے محکمہ ماحولیات رہنما اصول فراہم کریگا اور تمام متعلقہ نجی و سرکاری اداروں پر اس کی پابندی لازم ہوگی۔ اجلاس میں نجی اور سرکاری ہسپتالوں ، کلینکس اور لیبارٹریوں کے فضلہ کو حفظان صحت کے مطابق ٹھکانے لگانے کی مانیٹرنگ کیلئے ہوسپٹل ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کے قیام کی اصولی طور پر منظور بھی دی گئی جبکہ محکمہ ماحولیات کو ہسپتالوں کے فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے عمل کی مسلسل نگرانی کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اجلاس میں سمندری حدود میں آلودگی کے خاتمے ، پلاسٹک بیگز کے استعمال کی حوصلہ شکنی، ماحولیاتی تحفظ کے لئے عوامی شعور کی بیداری اور شجرکاری میں اضافہ سے متعلق امور کا جائزہ بھی لیا گیا۔سیکرٹری محکمہ ماحولیات عبدالصبور کاکڑ نے اجلاس کو محکمانہ امور سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ محکمہ کے انسپکٹرز ہسپتالوں ، لیبارٹرز اور پرائیویٹ کلینکس میں فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے عمل باقاعدگی کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف موثر کاروائی کی جاری ہے جن میں ان کی بندش اور جرمانہ شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ محکمہ صحت نے بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے لئے انسیلنیٹر نصب کیا ہے جبکہ محکمہ ماحولیات نے سول ہسپتال کوئٹہ میں بھی انسیلنیٹر کی تنصیب کی سفارش کی ہے جس میں متعلقہ ہسپتال اور نجی ہسپتالوں کو فضلہ ٹھکانے لگانے کی سہولت حاصل ہوگی۔ انہوں نے بتایا پلاسٹک کے تھیلوں کے نعم البدل کے طور پر ایسے بیگز متعارف کئے جارہے ہیں جو چار سے پانچ ماہ میں خود بخود تلف ہوجاتے ہیں ان بیگز کی تیاری کے لئے نجی شعبوں میں دو فیکٹریاں قائم ہیں جہاں تیار کردہ بیگز کو ٹیسٹ کے لئے لاہور بھیجوایا گیا ہے رپورٹ کی وصولی کے بعد ان بیگز کو مارکیٹ میں متعارف کیا جائے گا۔