دنیا بھر کی طرح بلوچستان اور سندھ میں بھی آج بلوچ قوم پرست رہنما شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی کی 14 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ اس دن کومنانے کا مقصد ہے کہ نواب صاحب کی طرز زندگی اور شہادت کے مقصد پر روشنی ڈالاجائے۔
Posts By: عزیز سنگھور
سی پیک کا بھانڈا پھوٹ گیا
چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے مرکز مکران ڈویژن میں بجلی کے بحران نے سی پیک منصوبہ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ منصوبے پر کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے۔ ماڈرن دور میں بجلی کو انفراسٹرکچر کا بنیاد کہاجاتا ہے۔ جس کا مطلب وہ ستون جس کے سہارے پورٹ کی سرگرمیاں اور صنعتوں کی چمنیاں چلتی ہیں۔ پورٹ ہوں یا صنعت ان کی سانس بجلی پر منحصر ہے۔ آج کے دور میں بجلی انفراسٹرکچر کی بنیادی روح ہوتی ہے جس پر خطے کی ترقی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ دنیا کے جس ملک نے ترقی کی اس نے سب سے پہلے انرجی سیکٹر پر توجہ دی۔
بڑے باپ کا ہونہار بیٹا
نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کی موت نے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا کردیا۔ اس سیاسی خلا کو پر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے والد ممتاز سیاست دان میر غوث بخش بزنجو نے اپنی وصیت میں کہا تھاکہ اس کی سیاست کے وارث ان کی اولادیں نہیں بلکہ اس کے سیاسی کارکنان ہیں۔ لیکن حاصل خان نے کبھی بھی اس سیاسی وراثت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور نہ ہی سیاست کے میدان میں انہوں نے اپنے والدکا نام استعمال کیا۔ انہوں نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنائی۔ طالب علمی کے دور میں سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے کیا اور اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت، نیشنل پارٹی پر اختتام کیا۔
بلوچستان میں جاگیردارانہ نظام کی باقیات
بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن میں جاگیردارانہ نظام اور حکومتی ریشہ دوانیوں کے خلاف کسانوں کی تحریک ایک مرتبہ پھر متحرک ہوگئی ہے۔ پٹ فیڈر کینال سے پانی کی مصنوعی قلت اور چوری کے خلاف نیشنل پارٹی کی کال پر آل پارٹیز الائنس اور کسانوں نے احتجاج کیا۔ پٹ فیڈر کے پورے علاقے کے کسانوں کو ایک بار پھر سزا دی جارہی ہے۔ وہ اپنی زمینیں چھوڑیں یا اونے پونے داموں فروخت کردیں اور یہاں سے بھاگ جائیں۔ ان کا پانی بندکردیاگیاہے۔ کسان مرکز سے اپنے پانی کا حصہ مانگ رہے ہیں اور سندھ پر بھی الزام لگارہے ہیں کہ سندھ کے حدود میں ان کا پانی چوری ہورہا ہے۔
افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کا مستقبل
افغانستان کی موجودہ صورتحال نے نہ صرف ہمسائے ممالک کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے بلکہ افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کو عدم تحفظ جیسی صورتحال سے بھی دوچار کردیا ہے۔ افغان طالبان اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان تصادم کے خدشات کا اظہار کیاجارہا ہے۔
’’اگست‘‘ بلوچوں کے لئے ماہِ سیاہ
بلوچوں کے لئے اگست کا مہینہ ماہِ سیاہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مہینے میں بلوچ معاشرے میں بے شمارسانحے رونما ہوئے۔ ہرطرف آہ وزاری کا منظر رہا۔ ہر آنکھ اشکبار رہی۔ پہلا سانحہ سات اگست 2013 کو لیاری میں بزنجو چوک کے قریب فٹبال گراؤنڈ میں میچ کے دوران ہوا۔ اس بم دھماکہ میں پندرہ سے زائدبچے شہید اور 27 زخمی ہوئے جس سے علاقے میں سوگ کی فضا طاری ہوگئی۔
’’سی پیک‘‘ قبضہ گیریت کا منصوبہ
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچستان کے عوام کے لئے ایک دکھاوے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عوام کو جو سبز باغ دکھائے گئے اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ۔ اگرچہ سرکاری حکام سی پیک کو بلوچستان کے لیے گیم چینجر قرار دے رہے ہیںمگر دوسری جانب سیاسی جماعتوں نے سی پیک کو ایک قبضہ گریت کا منصوبہ قراردیا ہے۔
بلوچوں کا پہلا اور آخری مذاکرات
عسکریت پسند بلوچ بزرگ رہنما ء بابو نوروز خان اور آمر حکومت کے درمیان پہلا اور آخری مذاکرات ہوئے۔ حکومت کی جانب سے معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ میں اس معاہدے کو آخری معاہدہ اس لئے کہتا ہوں کہ اس معاہدے کی روگردانی سے بلوچ اور ریاست کے درمیان آج تک اعتماد کی ایک خلیج پیدا ہوگئی ہے جس سے بلوچوں کا بھروسہ ختم ہوگیا۔ اب بلوچوں کو رسی بھی سانپ نظر آتا ہے۔
”واشک“ عالمی طاقتوں کا فوجی اڈہ
ضلع واشک عالمی طاقتوں کے ایک فوجی اڈے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ خطہ جغرافیائی اورعسکری اعتبارسے اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ اس کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں جبکہ افغانستان بھی کچھ ہی دورہے۔ ویسے تومعدنی دولت کی وجہ سے بلوچستان کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ تاہم نائن الیون کے واقعہ کے بعد بلوچستان کی سرزمین کی اہمیت عسکری حوالے سے بڑھ گئی ہے۔
”جھل مگسی“ جدید نیشنل ازم کے بانی کی جنم بھومی
بلوچ قومی تحریک میں جدید بلوچ نیشنل ازم کے بانی، یوسف عزیز مگسی کا آبائی علاقہ جھل مگسی قرون وسطیٰ کا منظر پیش کررہا ہے۔ یوسف عزیز مگسی نے بلوچ سماج اور قومی تحریک میں ادارہ جاتی سوچ کی بنیاد رکھی۔ تاہم آج ان کی جنم بھومی ناقابلِ بیان حالات سے گزررہی ہے۔ 1935 میں کوئٹہ کے تباہ کن زلزلے میں ہم سے جدا ہونے والی عظیم سیاسی شخصیت یوسف عزیز مگسی کے بعد بالخصوص بلوچ معاشرہ خصوصاً جھل مگسی غیرسیاسی قیادت کی ہاتھوں میں چلا گیا۔ ایک طرف نیم فرسودہ قبائلی نظام جبکہ دوسری جانب جابر حکمرانوں نے جھل مگسی کی سیکولر سوچ کو ہلاکر رکھ دیا۔ ان کی بے وقت جدائی نے بلوچ تحریک کے لئے ایک خلا پیدا کردیا۔