بلوچوں سے گلہ شکوہ

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

پہلی بلوچی فلم ’’حمل ء ُ ماہ گنج‘‘ کے بانی اور معروف اداکار اور ڈائریکٹرانور اقبال آخری دم تک بلوچ قوم سے گلہ شکوہ کرتے کرتے ہم سے جدا ہوگئے۔ ان کی شکایت جائز تھی۔ اس وقت کی بلوچ قیادت کی جانب سے بلوچوں کو انور اقبال کی بنائی گئی فلم کے خلاف ورغلایا گیا۔… Read more »

ساراوان کی سسکیاں

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

بلوچستان کاضلع مستونگ باغات کی وجہ سے مشہور ہے جہاں تقریباً ہر طرح کے پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہاں کا کیک بھی اپنی نوعیت کا ایک سوغات سمجھا جاتا ہے جس کی مانگ بیرونی ممالک میں بھی ہے۔ جبکہ یہ علاقہ پولیس مقابلوں کے حوالے سے بھی کافی بدنام ہے۔ جہاں اب تک بے شمار سیاسی کارکنان بھی مارے گئے ہیں۔ یہاں ایک نامعلوم گروہ تعلیم نسواں کے خلاف سرگرم عمل بھی ہے۔ گزشتہ روز مستونگ میں پڑنگ آباد کے علاقے سورگزر ریلوے پھاٹک کے قریب خواتین اساتذہ کی اسکول وین پر موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے چار خواتین زخمی ہوگئیں۔

’’مہر گڑھ‘‘ کے باسیوں کی آہ و زاری

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

آٹھ ہزار سال قبل مسیح پرانی تہذیب ’’مہر گڑھ‘‘ کی جنم بھومی ’’ ضلع کچھی‘‘ آج خود آثار قدیمہ کا منظر پیش کررہا ہے۔ پورا ضلع کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہر طرف مشکلات اورمسائل نے یہاں کے لوگوں کواپنی آغوش میں لیا ہوا ہے۔ مکین ایک کشمکش سے دوچار ہیں۔ کس سے فریاد کریں؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف میں سیاسی کش مکش کی وجہ سے ضلع کے بے شمار ترقیاتی کام بند پڑے ہیں۔

جھلستا خضدار

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

بلوچستان کے ضلع خضدار کا نام سنتے ہی ایک طرف معروف سیاستدان کے نام یادآتے ہیں جنہیں ملکی کی سیاست کا محور کہاجاتا ہے۔ اس ضلع نے بلوچستان کو چار وزرائے اعلیٰ اور ایک گورنر بھی دیا۔دوسری جانب یہ ضلع اغوا برائے تاوان سمیت دیگر سماجی برائیوں کاگڑھ بھی سمجھاجاتا ہے۔ جہاں مختلف مضبوط و منظم گروہ سرگرم ہیں۔یہاں تاجروں اور سیاسی کارکنان کااغواروز کامعمول بن چکاہے۔ 2008 سے اب تک مختلف علاقوں سے 85 ہندو تاجروں کو تاوان کے لئے اغواکیاگیاجن میں سے تین کو مزاحمت پر قتل کردیاگیا جس کی وجہ سے کئی لوگ نقل مکانی کر کے سندھ اور انڈیا بھی چلے گئے۔

’’کوہلو‘‘ مزاحمت کا سرچشمہ

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

بلوچستان میں مری ایجنسی کے علاقے کوہ جاندران اور ماڑتل کے مقام پر گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ بتا یا جا رہا ہے کہ گیس کا یہ ذخیرہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں دریافت ہونے والے ذخیرے سے کئی گنا بڑا ہے۔ دونوں مقامات سے نکلنے والی گیس کے نئے ذخائر دریافت ہونے کے بعد پاکستان کو ایران اور ترکمانستان سے گیس خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بلوچستان کے ذخائر پاکستان کی ضروریات آئندہ 50 سالوں تک پوری کرسکیں گے۔

’’ریاست قلات‘‘ ماضی، حال اور مستقبل

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ریاست قلات کی تاریخ تقریباً پانچ سو سال سے زائدعرصے پرمحیط ہے۔خان آف قلات نے بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی بلوچ ریاستوں کو ایک ’’ بلوچ کنفیڈریشن‘‘ کا ڈھانچہ دیا۔ قلات خانیت قلات کا دارالحکومت تھا۔ تاریخی طور پرقلات کوقیقان کہا جاتا تھا۔

’’خاران‘‘ ریاست سے ضلع تک کا سفر

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ریاست خاران بلوچستان کے دیگر ریاستوں کی طرح ایک مستحکم اور مضبوط ریاست ہوا کرتی تھی۔ جہاں ریاستی ستون صحیح طریقے سے فنکشنل تھے۔ جن میں قاضی عدالتیں (عدلیہ) ،فوج سمیت دیگر ریاستی ادارے فعال تھے۔ یہ خوشحال ریاست پانچ صدیوں سے زائد عرصے تک چلتی رہی۔ جب ریاست کو پاکستان سے الحاق کروایا گیا تو یہ بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح سکڑ کرایک ضلع میں تبدیل ہوگیا۔ تاہم حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ضلع میں معاشی و سماجی مسائل نے جنم لینا شروع کیا جو ہنوز جاری ہیں۔ موجودہ صورتحال میں خاران ایک سیاسی انتقام جیسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ انتظامی اور پسماندگی کی بنیاد کے بجائے سیاسی پسند ناپسند کی بنیادپر فیصلے کئے جارہے ہیں۔ یہ انتقامی سیاست کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب عام انتخابات میں حکمران جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے امیدوار عبدالکریم نوشیروانی کو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے امیدوار ثناء بلوچ نے بری طرح شکست دے دی۔اس شکست کا بدلہ عوام سے لیا جارہا ہے، ان کے معاشی اور سماجی بہتری کے منصوبوں کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ ضلع خاران بارانی ندی نالوں کا ایک مرکز ہے۔ ضلع کے منظور شدہ چار ڈیمز پر کام آج تک شروع نہ ہوسکا جبکہ یہ چاروں ڈیمز پی ایس ڈی پی کا حصہ ہیں۔ چاروں ڈیمز کوہ راسکو، بڈو، چارکوہ سمیت دیگر مقامات پر بننے تھے۔ ان مقامات پر ڈیمز نہ ہونے سے برساتی پانی ضائع ہوجاتاہے۔ یہاں پہاڑی نالے ہیں پہاڑوں پر ہونے والی بارش کا پانی آتا ہے مگر وہ اسٹور نہیں ہوتا۔ان منصوبوں کی تعمیر سے ضلع کی زمین کو سرسبز و شاداب کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے زراعت کو نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے معیشت ،مالیات اور تجارت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگوں کی معیشت کا دارومدار اور انحصار زراعت اور مال مویشی پر ہے، زمینیں بنجر ہو چکی ہیں،کنوؤں میں پانی ناپید ہوچکا ہے۔

پانچ گمشدہ قبروں کا قصہ

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

پنجگور کا لفظی معنی پنج (پانچ) گور (قبر) یعنی پانچ قبریں ہے۔اس کانام پنجگور اس طرح پڑا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ مقبرے اصحابہ کرام کی ہیں۔ تاہم مورخ ان پانچ صحابہ کرام کے نام بتانے سے قاصر ہیں اور نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ نے ان پانچ گمشدہ قبروں کو دریافت کیا۔ یہ قبریں کہاں واقع ہیں۔ ان کی نشاندہی بھی ایک معمہ بن چکی ہے۔جس طرح آج پنجگور کی تاریخی قبریں لاپتہ ہیں۔ اس طرح ان کی آدھی آبادی کو حالیہ مردم شماری کے ذریعے لاپتہ کردیاگیا۔ پنجگور کی آبادی کو کم دکھایاگیا جبکہ ان کی آبادی کئی گنازیادہ ہے۔ ضلع پنجگور میں دو صوبائی نشستیں ہوا کرتی تھیں، ان کو کم کرکے ایک نشست کردی گئی جبکہ دوسری صوبائی نشست کو ضلع آواران میں ڈال دیاگیا جس کی وجہ سے پنجگور ضلع انتظامی اور مالی طور پر کمزوراور غیرمستحکم ہوگیا۔ اس اقدام سے ترقیاتی فنڈز میں کمی آگئی جس کے باعث پسماندہ ضلع مزید پسماندگی سے دوچار ہوگیا۔ سڑک، تعلیم، صحت، بجلی، پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی نے ایک سونامی کی شکل اختیار کرلی ہے، تمام تر بنیادی سہولیات عوام کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔

”ڈیرہ بگٹی“ وارث سے لاوارث تک

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ڈیرہ بگٹی بلوچستان کا واحد ضلع ہے جو سیاسی طورپر یتیم ضلع ہوچکا ہے۔ یہ یتیمی سیاسی اور سماجی قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہوئی جس سے ضلع میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسئلوں نے جنم لینا شروع کیا۔ یہ سیاسی خلاء2006 کو بزرگ سیاستدان نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ کسی زمانے میں یہیں سے بلوچستان اور وفاقی حکومتیں بنتی اور گرتی تھیں۔ جہاں وزیراعظم، صدر مملکت، وزیراعلیٰ سمیت وزرا ء کی قطاریں لگی رہتی تھیں،ان کی حاضریاں ہوتی تھیں۔ سیاسی ہمدردیاں اور حمایتیں لی جاتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کی نظریں ڈیرہ بگٹی پر جمی ہوتی تھیں۔ یہ ضلع ملکی سیاست کا سرچشمہ ہوا کرتا تھا۔ نواب صاحب کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو اس کی سوچ تھی سوچ کبھی نہیں مر سکتی۔ سوچ ایک سے دوسرے تک اور بالآخر نسلوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔

’’زر‘‘ کی تلاش

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

کراچی کی قدیم بلوچ آبادیوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان قدیم بستیوں کو ہٹانے کے لئے سندھ پولیس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مقامی افراد کی زرعی اراضی کوزبردستی بلڈرمافیاز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ چراگاہوں پرقبضہ کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب ساحلی پٹی پرماحول دشمن منصوبے کے قیام کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ماہی گیری کے اہم مقامات پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ ضلع ملیر سے لیکر ضلع کیماڑی تک ایک گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف انڈیجینس لوگوں پر ڈھائے جانے والی زیادتی اور ظلم کے خلاف نام نہاد قومی میڈیا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے تو دوسری جانب سندھ حکومت اور وفاقی ادارے بلڈرمافیاز اور ملکی وغیر ملکی کمپنیوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔