سلگتا لیاری

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

بارہ مارچ دو ہزار چودہ کو لیاری جھٹ پٹ مارکیٹ میں پیش آنے والے واقعہ نے انسانیت کو ہلاکر رکھ دیا۔لیاری کے عوام اس سانحہ کو ایک بھیانک دن کے طور پر یاد کرتے ہیں۔دراصل یہ واقعہ حکومتی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ سانحہ جھٹ پٹ میں بیس سے زائد خواتین اور بچے شہید ہوئے جبکہ پچاس کے قریب افراد زخمی ہو گئے تھے۔ لاشیں اٹھانے کے لئے ریسکیو کی ٹیمیں اپنی جگہ، قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی کئی گھنٹوں کے بعدجائے وقوع پر پہنچے۔ یہ وہ دور تھاجب لیاری کے محنت کش عوام گینگ وار کے رحم کرم پر تھے۔ حکومت کی ناکامی کی وجہ سے مافیازنے سر اٹھانا شروع کیا تھا۔

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ، موت کا کنواں

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ مزدوروں کے لئے موت کا کنواں بن چکا ہے۔ جہاں ہیلتھ وسیفٹی اور لیبر قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ لیبر قوانین کے عدم اطلاق اور ہیلتھ وسیفٹی کے تسلیم شدہ اصولوں اور معیار سے مالکان کی مسلسل روگردانی اور حکومت ومتعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت ،لاپروائی اور سرپرستی کی روش نے ہزاروں مزدوروں کو منہ کے موت میں دھکیل رکھا ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ آئے روز محنت کشوں کی کام کی جگہوں پر دورانِ کار شہادتیں ہوتی ہیں یاوہ زخمی ہو کر اپاہج بن جاتے ہیں۔شپ بریکنگ یارڈ پر کام کرنے والے محنت کشوں کے مطابق آئے روز آگ لگنے کے واقعات تسلسل سے رونماہوتے ہیں ۔

بلکتا مغربی بلوچستان

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ایرانی زیرتسلط مغربی بلوچستان کے شہر سراوان میں معصوم شہریوں کے قتل عام کی وجہ سے مختلف علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ شہرسراوان میں حالات کشیدہ ہوگئے۔ مظاہرین نے گاڑیوں کو آگ لگادی۔جبکہ سرکاری دفترمیں توڑپھوڑ کی گئی۔گزشتہ روزایرانی فورسز کی فائرنگ سے 37 افراد جان بحق اور 50 زخمی ہو گئے۔ فائرنگ کا واقعہ ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں سراوان کے سرحدی علاقے حق آباد کے مقام پر پیش آیا۔جاں بحق ہونے والوں کا تعلق بارڈر پر تیل کے کاروبار سے منسلک افراد سے تھاجو پاک ایران بارڈر پر تجارت کرتے تھے۔

گوادر کی مسخ شدہ تاریخ

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ یہ محاورہ ہے۔ تاریخ نے خود کو جس قدر بلوچستان میں دہرایا ہے، شاید ہی کبھی کسی خطے میں دہرایا ہو۔ حالانکہ ہر دور میں بلوچستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔حال ہی میں بلوچستان کے ساحلی شہرگوادر میں سینیٹر اسحاق بلوچ کے نام سے منسوب کرکٹ اسٹیڈیم کے نام کو نام نہاد قومی میڈیا میں مسخ کرکے پیش کیاگیا۔ ایسا پیش کیاگیا کہ یہ گراؤنڈ حال ہی میں سی پیک منصوبے کے تحت تعمیر کیاگیا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ تیس سال قبل گورگیج قبیلہ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اسحاق بلوچ نے اپنے فنڈز سے یہ گرائونڈ تعمیر کروایا۔

منان چوک سے ڈی چوک تک

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ایک مرتبہ پھر بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے میں شدت آگئی ہے۔ بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے ایوان صدر پاکستان، وزیراعظم ہاؤس اور عدالت عظمیٰ پاکستان سے چندگز کے فاصلے پر دھرنا دینے میں کامیابی حاصل کرلی۔ فیملیز نے تمام رکاوٹیں توڑ کر تختِ اسلام آباد تک رسائی حاصل کرلی۔ اس مقام کو ڈی چوک کہتے ہیں۔ ڈی چوک ایک بڑا عوامی چوک ہے جو اسلام آباد میں جناح ایونیو اور شارع دستور کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ چوک کئی اہم سرکاری عمارتوں کے قریب ہے۔ جن میں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، مجلس شوریٰ پاکستان اور عدالت عظمیٰ پاکستان شامل ہیں۔

انڈیجینس لوگوں کی دکھ بھری کہانیاں

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

کراچی کی قدیم بلوچ آبادیوں کو سیاسی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل نے گھیرے میں لیاہوا ہے۔ مضبوط پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی سیاسی قوت کمزور ہوگئی ہے۔ ان کی مرکزیت پارہ پارہ ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ان کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ایک سیاسی جمود کی وجہ سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان کی آبادی کو ہٹایا جارہا ہے۔ ان کی زرعی اراضی کو بلڈر مافیاز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ ان کی چراگاہوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ ان کی ماہی گیری کرنے کے اہم مقامات پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ لیاری، ملیر، ہاکس بے، ماری پور، لال بکھر، گریکس ولیج، مبارک ولیج، گڈاپ، منگھوپیر، مواچھ سمیت دیگر قدیم آبادیوں میں ایک بے چینی اور مایوسی کی فضا قائم ہے۔

عزیز سنگھور |صدیق بلوچ، ایک عہد تمام ہوا

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

سینئر صحافی اور سیاسی، معاشی اور اقتصادی امور کے ماہر صدیق بلوچ کی شخصیت اور صحافتی زندگی کا احاطہ چند الفاظ میں کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ پوری زندگی آزادی صحافت کا درس دیتے رہے۔ اْنہوں نے اپنے نظریات اور اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، آخری دم تک اپنے نظریات پر سختی سے ڈٹے رہے۔ وہ انتہائی کٹھن حالات کا مستقل مزاجی سے مقابلہ کرتے رہے۔ جب انہوں سیاست کا آغاز کیا تو انہوں نے قیدوبندکی صعوبتوں اور اذیتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ وہ نہ کبھی ٹوٹے ،نہ جھکے، بلکہ اشرافیہ کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے رہے۔

لمہ وطن

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

سیاسی، سماجی اور طالبہ تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی سمیت دیگر تعزیتی اجلاس منعقد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اجلاسوں میں خواتین کی کثیر تعداد بھی شریک ہورہی ہے۔تعزیتی اجلاس اورغائبانہ نماز جنازہ سے قبل کریمہ بلوچ کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ تمپ، بلیدہ، تربت، پنجگور، خضدار، چاغی، خاران، قلات، کوئٹہ، کراچی سمیت دیگر تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں یہ خراج تحسین کا سلسلہ جاری ہے۔

وائے وطن ہشکیں دار

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کو سینکڑوں افراد کی موجودگی میں ان کے آبائی گاؤں تمپ میں سپرد خاک کردیاگیا۔ یہ تدفین ان کی وصیت کے مطابق کی گئی۔ ان کے وصیت کے مطابق وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تمپ میں گزارنا چاہتی تھیں۔جہاں ان کی روح موجود ہے۔ ان کی وصیت ’وائے وطن ہشکیں دار‘ کے فلسفے کے عین مطابق تھی۔’وائے وطن ہشکیں دار‘ کے معنی ہیں کہ ’ہمارے وطن میں اگر خشک لکڑی بھی ہو تو ہمارے لیے وہ بھی بہت بڑی چیز ہے۔

لیاری میں مافیا کا راج

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

لیاری میں ڈرگ مافیا سے زیادہ طاقتور بلڈر مافیا ہے جس کی آمدنی دوگنا اور سرکاری سرپرستی چارگنا ہے۔ جس نے لیاری کوگنجان جنگل میں تبدیل کردیا۔ لیاری کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔مکینوں کی ضروریات بڑھ رہی ہیں جبکہ وسائل میں کمی آرہی ہے۔ لیاری میں سیوریج کا نظام درہم برہم، بجلی اور گیس کی… Read more »