|

وقتِ اشاعت :   February 25 – 2021

ایرانی زیرتسلط مغربی بلوچستان کے شہر سراوان میں معصوم شہریوں کے قتل عام کی وجہ سے مختلف علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ شہرسراوان میں حالات کشیدہ ہوگئے۔ مظاہرین نے گاڑیوں کو آگ لگادی۔جبکہ سرکاری دفترمیں توڑپھوڑ کی گئی۔گزشتہ روزایرانی فورسز کی فائرنگ سے 37 افراد جان بحق اور 50 زخمی ہو گئے۔ فائرنگ کا واقعہ ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں سراوان کے سرحدی علاقے حق آباد کے مقام پر پیش آیا۔جاں بحق ہونے والوں کا تعلق بارڈر پر تیل کے کاروبار سے منسلک افراد سے تھاجو پاک ایران بارڈر پر تجارت کرتے تھے۔

مرنے والوں میں بعض کا تعلق مشرقی بلوچستان کے ضلع پنجگور اور دیگر علاقوں سے بھی ہے۔ ان زخمیوں کو ضلع پنجگور اور دیگر علاقوں کے اسپتالوں میں منتقل کردیاگیا۔ایران سے ملنے والی اطلاعات سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز کے ذریعے پہنچ رہی ہیں۔ایرانی میڈیا پراس سانحہ کاکوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی سرکاری طورپر اس واقعہ کی کوئی تصدیق کی گئی۔ سوشل میڈیا پرگردش کرنے والی ویڈیوز میں ایرانی فورسزکے اہلکار پاک ایران بارڈرز پرکاروبارکرنے والے افراد پراندھادھندفائرنگ کرتے نظر آرہے ہیں۔

اور لوگ اپنی جان بچانے کے لئے چھپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ زخمی افراد مدد مانگنے کے لئے فریاد کررہے ہیں۔ جبکہ فورسز کے اہلکار مسلسل فائرنگ میں مصروف ہیں۔ایران میں سنی عالم دین اور جامعہ دار العلوم زاہدان کے مہتمم، عبدالحمید اسماعیل زئی نے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔انہوں نے معصوم لوگوں پرگولیاں برسانے پر ایرانی فورسز کو سزادینے کا بھی مطالبہ کیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ثنااللہ بلوچ نے ایک ٹویٹ میں ایرانی بلوچستان میں فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ ایرانی حکومت واقعے کی تحقیقات کرکے بے گناہ افراد کی ہلاکت۔

میں ملوث افراد کو سزا دے۔انہوں نے پاکستان اور ایرانی حکومت سے مطالبہ کیاکہ سرحد کے دونوں اطراف میں موجود بلوچ معاشی مسائل کا شکار ہیں۔دونوں ممالک کو ان کی بے روزگاری اور بھوک کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔بلوچ عوامی موومنٹ کے قائم مقام مرکزی آرگنائزر شہباز طارق بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے جاری بیان میں کہاکہ بلوچ مزدوروں اور ڈرائیوروں کا قتل عام کسی صورت برداشت نہیں۔ ایرانی حکومت کی جانب سے بلوچ مزدوروں اور ڈرائیوروں پرگولیاں برساکر شہید کرنا بلوچوں کی نسل کشی کے مترادف ہے۔

جس پر خاموش نہیں رہیں گے۔انہوں نے یہ انکشاف کیاکہ بارڈر پر اندھادھند فائرنگ سے مشرقی بلوچستان کے ضلع پنجگور کے بعض بلوچ نوجوان بھی شہید ہوئے ہیں۔ جو بارڈر پر تیل کے کاروبار سے منسلک تھے۔ شہباز طارق بلوچ ایڈووکیٹ نے اس انسانیت کش واقعات پر انسانی حقوق کمیشن سمیت پاکستانی سفارتخانہ و حکومت کی خاموشی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بیروزگاری اور مفلوک الحالی کے باعث نوجوان ایران سمیت دیگر ممالک میں تلاش روزگار کے سلسلے میں جاتے ہیں اور اس طرح بے موت مارے جاتے ہیں۔

کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والے اور ان کے اتحادی حکمرانوں کی نااہلی کے باعث آج ضلع پنجگور کے نوجوانوں کو اپنے کنبے کی کفالت کی خاطر جان سے ہاتھ دھونا پڑرہاہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق حکومت پاکستان سمیت صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچ نوجوانوں کے لیے روزگار کے ذرائع پیدا کریں تاکہ نوجوان اپنے ملک میں ہی باعزت روزگار سے مستفید ہوسکیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان اور ایران میں قائم پاکستانی سفارتخانہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر پنجگور کے بے گناہ افراد کے ناحق قتل کے خلاف اقوام متحدہ اور ایرانی حکومت کے سامنے احتجاج کریں۔

اور بے گناہ بلوچ مزدوروں کا خون بہانے والے ایرانی آرمی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کریں بصورت دیگر بلوچ عوامی موومنٹ سخت احتجاج کرے گی۔سیاسی و سماجی حلقوں نے مطالبہ کیا کہ غیرجانبدارانہ تحقیقاتی کمیشن بناکر اس المناک واقعہ کی شفاف تحقیقات کرکے اس میں ملوث مجرموں کی نشاندہی کی جائے اورانہیں قرار واقعی سزا دیکر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کے چیئرمین عبدالوہاب بلوچ کے مطابق پاک ایران بارڈرز سرحد کے انتظامات انتہائی ناقص ہیں لوگوں کے جان مال کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ریاستی اہلکار صرف غیر پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے آئے روز انسانی المیہ کے سبب بن رہے ہیں۔

پاک ایران بارڈر 909 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ بلوچستان کے اضلاع چاغی، واشک، کیچ، پنجگور اور گوادر سے متصل علاقہ ہے۔ دوسری جانب ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان ہے۔ کسی زمانے میں یہ ایک ہی علاقہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کو عالمی قوتوں نے تقسیم کردیا جس کی وجہ سے یہاں کے بلوچ سیاسی اور عسکری طور پرکمزور پڑگئے۔ جس سے ان کے معاشی مسائل پر بھی منفی اثرات پڑے۔ آج بلوچ سرزمین آپ کو ایران، پاکستان، اور افغانستان میں منقسم ملے گی۔ بلوچ سرزمین کو تقسیم کرنے کا مقصدبلوچ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا ۔

اس طرح ان کی مرکزیت کو توڑاگیا اور ان کی طاقت کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کیاگیا تاکہ بلوچ کمزور سے کمزورتر ہو سکیں اور حکمران ان پر حکمرانی کرتے رہیں۔ تقسیم در تقسیم کی پالیسی ہنوز بھی ایرانی زیرتسلط مغربی بلوچستان میں جاری ہے۔ حال ہی میں ایران کی اسلامی مشاورتی کونسل کے ایک رکن سید محسن دہنوی نے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بلوچستان، سیستان، مکران اور سرحد نامی چار صوبے وجود میں آ جائیں گے۔

اگر آپ ماضی کی طرف نظر ڈالیں تو مغربی بلوچستان میں بلوچوں نے ہمیشہ فارس (1935 تک فارس ایران کا سرکاری نام تھا) میں حکومتوں کے تسلط اور امتیازی سلوک روا رکھنے کی شاؤنسٹ پالیسی کے خلاف بغاوت کی۔ بلوچ تاریخ کے مطابق مختلف ادوار میں بلوچ مزاحمت کاروں نے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے مسلح جدوجہد کی۔ اس تحریک کی سربراہی بلوچ قبائلی عمائدین اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے براہ راست خود کی۔ جن میں سردار حسین ناروہی ،بہرام خان، میر دوست محمد خان، داد شاہ بلوچ، عبدالمالک ریکی اور دیگر شامل ہیں۔

ایرانی زیرتسلط مغربی بلوچستان میں گجر حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچ تیزی سے اپنی قومی شناخت کھو رہے ہیں۔ بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے۔ ایران میں بلوچوں کو مکمل طور پر ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اداروں کے بنیادی ڈھانچوں سے خارج کردیاگیا ہے۔بلوچی ثقافت اور بلوچی زبان کی تشہیر ملک کے خلاف غداری تصورکیاجاتا ہے۔ اور ایسے عمل سے سفاکانہ طریقے سے نمٹا جاتا ہے۔ ان اقدامات کے پیچھے ایک ذہنیت اور سوچ کارفرما ہے۔ اس ذہنیت اور سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

وگرنہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں بھی رونماہونگے۔ یہ وہی سوچ ہے جو معاشرے میں بغاوت کے رجحانات میں اضافہ کرتا ہے اور ہر شہری کو بغاوت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ پرامن شہری باغی بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب پرامن شہری اپنی جان بچانے کے لئے بندوق اٹھاتے ہیں تو ان پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے۔