ملک میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوگئی ہے مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیش نظر بس اورریلوے سروسز کی بحالی پر صوبائی حکومتوں میں شدید تحفظات پایا جاتا ہے اوروہ ایسی صورتحال میں ان کی بحالی کے حق میں نہیں ہیں۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد اب تک ٹرانسپورٹ اور ریلوے سروس مکمل طور پر بند ہیں جبکہ ایمرجنسی اور ضرورت کے پیش نظر ائیرپورٹ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے مگر معمول کے طور پر اس کی سروس معطل ہے۔ دوسری جانب سندھ اور بلوچستان نے وفاقی وزارت ریلوے کی جانب سے ٹرین سروس کھولنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیاہے۔وزیر ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے قبل سندھ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، معیاری ضابطہ کار (ایس او پیز) پر عمل نہیں ہوا تو شیخ رشید کو استعفیٰ دینا ہوگا۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے بعد یہ خدشہ موجود تھا کہ چند ممالک اس عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے پراکسی وار کرینگے کیونکہ نائن الیون کے بعد کابل میں ان کی گرفت مضبوط تھی جو افغانستان کے ذریعے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت اس وقت سب سے زیادہ امن عمل کی کامیابی سے پریشان دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آئے جس میں تمام افغان قیادت ایک پیج پر ہو۔
دنیا میں سب سے پہلے اولیت اپنی معاشی پالیسی کو دی جاتی ہے مگر اس کی کامیابی کی بنیاد بہترین پالیسی اور قانون کی عملداری ہے، سیاستدانوں سے لے کر تمام شعبوں پر اسی شعبہ سے وابستہ ماہرین کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ گوکہ چند ممالک میں سرمایہ دار طبقہ اقتدار پر براجمان ہونے کا خواہش مند ہوتا ہے اور اس کی تکمیل کیلئے اپنا سرمایہ اور اثرورسوخ لگاتا ہے تاکہ وہ اپنی تجارت اور کاروبار کو وسعت دے سکے مگر اس قدر بھی وہاں اتنی آزادی نہیں کہ عوامی دولت کو مال غنیمت سمجھ کر انتخابات کی جیت کے بعد لوٹ کر اپنی تجوریاں بھریں بلکہ وہاں قانون کی کسی حد تک عملداری اور احتساب کا ایک شفاف عمل بھی موجود ہے۔
ملک بھر میں جب سخت لاک ڈاؤن کافیصلہ کیا گیا تو سب سے پہلے تجارتی مراکز کی بندش کو یقینی بنایا گیا، اسی طرح دیگر سرکاری وغیر سرکاری محکموں میں ملازمین کی تعداد کو انتہائی کم رکھا گیا جبکہ صنعتوں،ریسٹورنٹس، تفریحی مقامات،کھیلوں کے میدان،فوڈپوائنٹس کو بھی اس لئے بند کیا گیا تاکہ کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلاؤ کو روکاجاسکے، ایک ماہ سے زائد تک یہ پابندیاں برقرار رہیں مگر دوسری جانب یہ خدشہ بھی اپنی جگہ برقرار تھا کہ ان پابندیوں کے باعث عوام کی بڑی تعداد روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے گی اور تاجر برادری بھی دیوالیہ ہوجائے گی۔
کراچی پولیس کی ایک بدنام تاریخ رہی ہے کہ منشیات فروشوں کی سرپرستی وہ کرتی آئی ہے، کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ کراچی کے بعض علاقوں کے تھانوں میں چل رہا ہے چونکہ یہ پولیس آفیسران کے لئے کروڑوں روپے کمانے کا بڑا ذریعہ ہیں باقاعدہ طور پر پولیس آفیسران مختلف علاقوں میں تعیناتی کیلئے سفارشیں کراتے ہیں جس کے بعد وہ علاقے کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر جرائم کرتے ہیں۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک اور دلخراش واقعہ گزشتہ روز رونما ہو ا،دہشت گردوں نے خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا، معصوم اور نہتے بچوں وخواتین پر حملے وحشیانہ اور بزدلانہ فعل ہے جس کی ہر سطح پر صرف مذمت ہی کی جارہی ہے بلکہ دنیا کے امن کے دعویداروں کو ایسے دہشت گردوں کے خلاف ایک واضح پالیسی اپنانی چاہیے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ خطہ جنگی حالات کا سامنا کررہا ہے خاص کر افغانستان میں سب سے زیادہ انسانی تباہی دیکھنے کو ملی ہے جس کی ذمہ دار عالمی برادری ہے جس نے اپنے مفادات کے لئے اسے پراکسی کا حصہ بنادیا ہے۔
ملک بھر میں لاک ڈاؤن میں نرمی سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔اجلاس میں لاک ڈاؤن سے متعلق فیصلوں پر عملدرآمد اورکورونا وائرس کے پھیلاؤکی شرح کا جائزہ لیا گیا۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وینٹی لیٹرز کے بہترین استعمال اور اس کے آسانی سے میسر آنے کیلئے مربوط حکمت عملی تیارکی جائے۔انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال، عوام کے مسائل اور دیگر ملکوں کی صورتحال کومدنظر رکھ کر لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تاکہ معاشی سرگرمیوں اور حفاظتی اقدامات کے درمیان توازن برقرار رکھا جا سکے۔وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی طور پر اس امر کا ادراک کیاجارہا ہے کہ لاک ڈاؤن کورونا کے خلاف وقتی عمل ہے، کورونا سے بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات کوکسی صورت نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
کووڈ19 کے کیسز سب سے پہلے چین میں رپورٹ ہوئے اس کے بعد یہ دنیا کے دیگر ممالک کو متاثر کرنے لگی،ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوگئی، کورونا وائرس ایک نئی وباء جو دنیا کے سامنے آگئی، لمحہ بہ لمحہ کورونا کے کیسز رپورٹ ہونے لگے جس سے ایک خوفناک صورتحال بن گئی۔ ابتدائی دنوں میں لوگ زیادہ خوف کا شکار ہو گئے کہ کس طرح کاقیامت ٹوٹ پڑاہے۔ پوری دنیا کے انسانوں کی نقل وحرکت کو مکمل طور پر محدود کردیا گیا، بیشتر ممالک نے لاک ڈاؤن کردیا،اسی طرح پاکستان میں جب کیسز رپورٹ ہونے لگے تو فوری طور پر پہلے سندھ بعد میں تمام صوبوں نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔
کورونا وائرس اور تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی نے خلیجی ممالک کو بڑے معاشی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ملازمتوں سے محرومی اور مستقبل غیر یقینی ہونے کی وجہ سے لاکھوں غیرملکی ملازمین نے وطن واپسی کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔متحدہ عرب امارات میں 60 ہزار پاکستانی ملازمین نے وطن واپسی کے لیے خود کو رجسٹر کرالیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں بھارت، بنگلا دیش، مصر اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں ملازمین اپنے ملکوں کو لوٹ جائیں گے۔
بلوچستان حکومت نے کورونا وائرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن میں ایس اوپیز کے تحت نرمی کافیصلہ کیا ہے خاص کر تاجر برادری اور عوام کی مشکلات کو مدِ رکھتے ہوئے وفاقی وصوبائی حکومتوں کے درمیان بات چیت کے بعد ملک بھر میں سخت پابندیوں کا خاتمہ کیا گیا ہے بشرطیکہ جو ایس او پیز لاگو کی گئیں ہیں ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے کیونکہ یہ سہولت معاشی صورتحال کے پیش نظر دی گئی ہے تاکہ تاجر برادری اور عوام کی مشکلات کم ہوسکیں اورماہ صیام وعید کے لیے مزید پریشانی کا سامنا نہ کرناپڑے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی ہدایات کی روشنی میں لاک ڈاؤن جائز ہ امور کمیٹی کا اجلاس ہواجس میں فیصلہ کیا گیا۔