بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں انتہا ء پسند ہندو بلوائیوں کے حملوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 42 ہوگئی۔دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں 24 فروری کو ہندو انتہا پسندوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے موقع پرمتنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد پر منظم حملے کیے تھے۔ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے یہ حملے تین روز تک جاری رہے جن میں مساجد، گاڑیوں، مکانات اور دیگر املاک کو نذر آتش کیا گیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق دہلی کے شمالی علاقوں میں مسلح جتھوں نے مسلمان نوجوانوں کو شناخت کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 42 تک جاپہنچی ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے احتیاطی تدابیر کے طور پر پاکستان نے ایران کے ساتھ براہ راست پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ایوی ایشن ڈویژن کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ تمام براہ راست پروازوں پرپابندی عائد کردی ہے۔ڈویژن کے مطابق 27 اور 28 فروری کی درمیانی شب 12 بجے کے بعد سے تا حکم ثانی ایران کے ساتھ تمام براہ راست پروازوں پر پابندی ہوگی۔اس سے قبل متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک نے بھی ایران کے ساتھ فلائٹس آپریشن کو معطل کردیا ہے۔ایران میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 106 نئے کیسز کے ساتھ 245 تک پہنچ گئی ہے جبکہ مزید 7 اموات کے ساتھ ہلاکتوں کی تعداد 26 ہوگئی ہے۔
پوری دنیا میں اس وقت سب سے بڑی خبر کرونا وائرس ہے جو روز بروز پھیلتا جارہاہے جس کے تدارک کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ چین سے شروع ہونے والے اس وائرس نے مڈل ایسٹ، مغرب کے بعد ایران اور افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے مگر اس وقت افغانستان اتنا متاثر نہیں ہے البتہ ایران میں پچاس کے قریب کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ایران میں خاص کر اس وائرس نے جہاں صورتحال کو گھمبیر بنادیا ہے وہیں۔
کروناوائرس اس وقت ایک بڑاچیلنج بن چکا ہے دنیا کے بیشتر ممالک نے اس وائرس کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا شروع کردیئے ہیں، اسپتالوں میں مکمل ایمرجنسی نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ تمام صحت کے مراکز کو فعال کرتے ہوئے سہولیات سے آراستہ کیا گیاہے کیونکہ جس تیزی کے ساتھ یہ مہلک مرض پھیل رہا ہے، اس نے دنیا کو خوفزدہ کردیا ہے۔
ایران میں کرونا وائرس پھیلنے اور وہاں ہونے والی اموات سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں خوف کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ ابتدائی طور پر بلوچستان سے ملنے والی ایرانی سرحد کو دونوں جانب سے سیل کردیا گیا ہے جس کی تصدیق ایرانی حکام اور بلوچستان کی صوبائی حکومت نے کی ہے۔ گزشتہ روز چیف سیکرٹری بلوچستان نے اس حوالے سے ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا جس میں کرونا وائرس کے حوالے سے اقدامات اور بلوچستان کو محفوظ بنانے کے حوالے سے آفیسران اور سیکیورٹی حکام سے بریفنگ لی تھی جس پراجلاس شرکاء نے اہم فیصلے بھی کئے تھے جن میں خاص طورپر ایران کے ساتھ آمد ورفت کو مکمل طور پر بند کرنا شامل ہے تاکہ کرونا وائرس سے متاثرہ کوئی بھی شخص سرحد پار کرکے بلوچستان میں داخل نہ ہوسکے،اسی طرح پیٹرولنگ، اسمگلنگ کا راستہ اپنانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔
ملک میں اظہار رائے کی آزادی کی جدوجہد ایک طویل تاریخ رکھتی ہے جہاں جمہوریت، ترقی پسند سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے سیاسی اکابرین، سول سوسائٹی، وکلاء تنظیموں، ٹریڈیونینز، طلباء تنظیموں نے تحریکیں چلائیں وہیں صحافتی برادری نے بھی اس میں کلیدی کردار ادا کیا اور صف اول میں رہتے ہوئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ جب بھی ملک میں جمہوریت اور استحکام کی مثال دی جاتی ہے تو اس میں ملک کے نامور صحافیوں کا ذکر ضرور آتا ہے کہ کن حالات سے گزر کر انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا جس کی وجہ سے آج ملک میں صحافتی شعبہ نے نہ صرف ترقی کی بلکہ اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ملک میں جمہوری اور غیر جمہوری ادوار میں میڈیا کو کسی طرح بھی زیرعتاب لانے کیلئے ہرقسم کے حربے آزمائے گئے، مختلف قوانین لاگو کئے گئے تو کبھی دیگر طریقوں سے صحافیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی مگر حکومتی مدت اتنی طویل نہیں رہی کہ وہ میڈیا کی آواز کو دبانے میں کامیاب ہوسکے۔
دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی قوم ہو جسے اپنی مادری زبان سے محبت نہ ہو، اپنی زبان، کلچر اور روایات پر فخرنہ ہو۔ پاکستان میں بھی بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں اور مختلف اقوام اپنے کلچر، تاریخ اور تہذیب پر فخر کرتے ہیں جبکہ دیگر اقوام کے کلچر اور روایات کا احترام کرنا خود قومی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت بولی جانے والی مادری زبانوں کو کس حد تک سرکاری سطح پر اہمیت حاصل ہے اس کا اندازہ پنجابی زبان سے لگایا جاسکتا ہے۔
بلوچستان کی پسماندگی اور بدحالی اپنی ایکالگ تاریخ رکھتی ہے جس کا رونا ہروقت سب سے زیادہ ملک کی بڑی جماعتوں نے رویا ہے شاید اتنا افسوس قوم پرست اورصوبہ کی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے نہیں کیا ہوگا جن کا ایک بڑا ووٹ بینک بلوچستان میں موجود ہے اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ان کے نمائندگان منتخب ہوکر آتے ہیں۔یہ بدقسمتی بھی رہی ہے کہ بلوچستان میں ایک سیاسی جماعت کی حکومت کبھی نہیں رہی ہمیشہ مخلوط حکومت تشکیل پائی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایسے چہرے حکومتوں میں نظرآتے ہیں جوکبھی اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ بلوچستان جتنا پسماندہ صوبہ ہے یہاں پر حکومت کا حصہ یا اتحادی ہونا اتنا ہی فائدہ مند رہتا ہے گویا عوامی نمائندہ کی بجائے ایک پُرکشش کاروبار میں سرمایہ کاری کی گئی ہو۔
افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا سے معاہدے پر دستخط اس مہینے کے آخر تک متوقع ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق قطر میں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ امریکا طالبان معاہدے پر دستخط کا اعلامیہ جلد جاری کیا جائے گا۔دونوں جانب سے معاہدے پر دستخط اس مہینے کے آخر تک متوقع ہیں اور اس سے قبل فریقین پُرتشدد کارروائیاں روکنے کے حوالے سے اعلامیہ جاری کریں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال سے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جس کے ذریعے امریکا اس طویل ترین جنگ سے چھٹکارہ حاصل کرناچاہتا ہے۔اس دوران امن مذاکرات کے متعدد دور چل چکے ہیں اور گزشتہ سال ستمبر میں فریقین معاہدے کے قریب بھی پہنچ گئے تھے تاہم کابل حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہونے کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو پوری عالمی برادری اس پر نہ صرف آواز بلند کرتی ہے بلکہ عملی طور پر مظالم کے خلاف کردار بھی ادا کرتی ہے اور اس طرح سے کتنے ایسے ممالک ہیں جہاں پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے امن اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بڑے پیمانے پر جنگ کی جس کی واضح مثال افغانستان، عراق اور شام ہیں مگر جب بھی کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو عالمی برادری مکمل خاموشی اختیار کرتی ہے خاص کر امریکہ اور اس کے اتحادی لب کشائی تو کجا بلکہ فلسطین اور کشمیر کے معاملے پر انتہائی محتاط دکھائی دیتے ہیں چونکہ ان کے مفادات ان ممالک سے وابستہ ہیں۔