کاروباری ہفتے کے تیسرے روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 20 پیسے کی نمایاں کمی ہوگئی جس سے یہ گزشتہ کئی ماہ کے بعدنچلی ترین سطح پر آگئی۔ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے مطابق اوپن مارکیٹ میں آج ڈالر 155.15 روپے میں فروخت ہوا جو کہ گزشتہ روز 155.35 روپے میں دستیاب تھا۔اسی طرح انٹر بینک میں آج ڈالر 155.25 میں فروخت ہوا۔ رواں سال جون سے لیکر اب تک ڈالر کی قیمت میں آٹھ روپے 85 پیسے کی کمی ہوچکی ہے۔2019 کے آغاز میں ڈالر کی قیمت میں روپے کے مقابلے میں پیش رفت جاری رہی۔ جنوری میں ڈالر 138 روپے93 پیسے، فروری میں 138 روپے 90 پیسے اور مارچ میں 139 روپے10 پیسے پر ٹریڈ کررہا تھا۔اپریل 2019 میں ڈالر چھلانگ لگا کر 141 روپے 50 پیسے پر چلاگیاتھا۔ مئی میں 151 روپے اور جون میں تاریخ کی بلند ترین سطح 164روپے پرجا پہنچی۔ جولائی 2019 میں ڈالر کی اڑان رک گئی اور ڈالرکی قیمت میں کمی کے بعد انٹربینک میں 160 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 161 روپے کا ہوگیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ حکومت کونیب قانون تبدیل کرنے کا کہا تھا لیکن کچھ نہیں کیا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے سزا دے دیں۔آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں گرفتار ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاثردیا گیا سپریم کورٹ نے نیب قانون میں سختی کردی۔ آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے سختی نہیں کی صرف قانونی پوزیشن واضح کی تھی۔
کوئٹہ بلوچستان کا دارالخلافہ ہے بدقسمتی سے سب سے زیادہ آلودگی اسی شہرمیں پائی جاتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقامی ادارے آلودگی سے نمٹنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ ابلتے ہوئے گٹر بند کردیں اور انسانی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے شہر کو صاف ستھرا رکھ سکیں۔ شہر میں کہیں بھی صفائی ستھرائی کاکام ہوتانظر نہیں آتاالبتہ کبھی کبھار شہر کے چند ایک علاقوں میں صفائی مہم دکھائی دیتی ہے اس کے علاوہ صفائی مہم محض دعویٰ ہی ثابت ہورہی ہے، کچرا اٹھانے والی گاڑیاں بھی شاذو نادر شہر کے سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ سنیٹری کارکن سڑکوں اور گلیوں کو صاف کرتے نظر نہیں آتے وہ سرکاری ملازم ہیں لیکن سرکاری کام ہی نہیں کرتے۔ کوئٹہ شہر کو صاف ستھرا رکھنے اور ماحولیاتی آلودگی سے بچائے رکھنے کی پہلی ذمہ داری کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن پر عائد ہوتی ہے۔
گزشتہ روزبے روزگار ایسوسی ایشن اور سیاسی جماعتوں کی لانگ مارچ پر کوئٹہ پولیس نے دھاوا بول کر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت 100 سے زائد افراد کو گرفتارکرکے مختلف تھانوں میں بند کردیاجبکہ ردعمل میں سیاسی رہنماؤں اور بے روزگار ایسو سی ایشن کے رہنماؤں نے غنجہ ڈوری کے مقام پر 3 گھنٹے تک کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ بلاک کیا۔بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے۔ بے روزگار ایسوسی ایشن کے لانگ مارچ کا مقصد چھوٹی گاڑیوں کے ذریعے ایرانی تیل کی ترسیل پر حکومتی پابندی کا خاتمہ ہے جنہوں نے26 نومبر کو مستونگ سے کوئٹہ تک پیدل لانگ مارچ کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ فغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں گے۔ طالبان معاہدہ کرنا چاہ رہے ہیں اس لیے ہم ان سے ملاقات کررہے ہیں،ہم کہتے ہیں کہ جنگ بندی ہونی چاہیے، وہ سیز فائر نہیں چاہتے تھے لیکن اب وہ بھی جنگ بندی چاہتے ہیں اور میرے خیال سے اب کام ہوجائے گا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچ گئے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے صدیق بلوچ میڈیا اکیڈمی کا سنگ بنیاد رکھ دیا،صدیق بلوچ میڈیا اکیڈمی کا مقصد صحافتی وعلمی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ صدیق بلوچ اکیڈمی میں صحافتی نیوزیم بھی تعمیر کی جائے گی تاکہ بلوچستان کی صحافت میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے اداروں اور شخصیات کے پورٹریٹ رکھے جاسکیں جو نوجوانوں کیلئے علمی حوالے سے فائدہ مند ثابت ہو۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ موجودہ حکومت ہر شعبہ کی بہتری کیلئے پْرعزم ہے تاکہ صوبہ سے پسماندگی کا خاتمہ یقینی ہوسکے۔تقریب میں صوبائی وزراء ظہور بلیدی، میرضیاء لانگو، نصیب اللہ مری، عبدالخالق ہزارہ،بشریٰ رند،صدر پریس کلب کوئٹہ رضا الرحمان، جنرل سیکریٹری ظفر بلوچ سمیت سینئر صحافیوں اورعہدیداران نے شرکت کی۔واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے مالی سال 2019-20 کے بجٹ میں لالاصدیق بلوچ میڈیا اکیڈمی کے قیام کیلئے تین کروڑ روپے مختص کئے تھے جوکہ ایک غیر معمولی اقدام ہے جسے صحافتی، ادبی وسیاسی حلقوں سمیت عوام میں زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔
بلوچستان میں غذائی قلت کی بنیادی وجہ شدید خشک سالی ہے رواں سال کے دوران صوبے کے نوے فیصد علاقے قحط سالی کا شکار ہوئے تھے جس سے ماں اور بچوں کی صحت شدیدمتاثر ہوگئی تھی۔بلوچستان میں یہ سلسلہ 90ء کی دہائی کے بعد شروع ہوا ہے تاہم کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرتی گئی،اگر پیشگی اس پر منصوبہ بندی کی جاتی تو صورتحال اس قدر تشویشناک نہ ہوتی۔ کسی بھی شہر،علاقے یا کمیونٹی میں اگر پندرہ فیصد بچوں میں غذائی قلت پائی جائے تو وہاں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے،صوبے میں بچوں میں غذائی قلت کی کئی وجوہات ہیں جن میں غربت، پینے کیلئے صاف پانی کی عدم دستیابی، مناسب خوراک کی کمی،تعلیم اور آگاہی کا نہ ہونا شامل ہے جن سے بچوں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
بلوچستان میں غذائی قلت کی بنیادی وجہ شدید خشک سالی ہے رواں سال کے دوران صوبے کے نوے فیصد علاقے قحط سالی کا شکار ہوئے تھے جس سے ماں اور بچوں کی صحت شدیدمتاثر ہوگئی تھی۔بلوچستان میں یہ سلسلہ 90ء کی دہائی کے بعد شروع ہوا ہے تاہم کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرتی گئی،اگر پیشگی اس پر منصوبہ بندی کی جاتی تو صورتحال اس قدر تشویشناک نہ ہوتی۔ کسی بھی شہر،علاقے یا کمیونٹی میں اگر پندرہ فیصد بچوں میں غذائی قلت پائی جائے تو وہاں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے،صوبے میں بچوں میں غذائی قلت کی کئی وجوہات ہیں جن میں غربت، پینے کیلئے صاف پانی کی عدم دستیابی، مناسب خوراک کی کمی،تعلیم اور آگاہی کا نہ ہونا شامل ہے جن سے بچوں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔رواں سال شدید قحط سالی کے پیش نظر محکمہ صحت بلوچستان نے عالمی ادارے یونیسیف کے تعاون سے غذائی قلت کی صورتحال کا جائزہ لینے اور اقدامات کیلئے ہنگامی بنیادوں پر متاثرہ بچوں کی اسکریننگ کا فیصلہ کیا جس کے بعد گزشتہ برس دسمبر کے دوران پہلے مرحلے میں کوئٹہ،پشین اور قلعہ عبداللہ میں اسکریننگ کا عمل شروع کیا گیا۔
سابق صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کیلئے وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے دائر درخواست میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کو 28 نومبر کو کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔درخواست بیرسٹر سلمان صفدر کے ذریعے دائر کی گئی ہے۔اپنی درخواست میں وزارت داخلہ نے مؤقف اپنایا ہے کہ سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کے شریک ملزمان کو ٹرائل میں شامل ہی نہیں کیا گیا، پراسیکیوشن ٹیم کو 23 اکتوبر کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا مگر 24 اکتوبر کو اس نے بغیر اختیار کے مقدمہ کی پیروی کی۔
بلوچستان جوہر شعبہ زندگی میں دیگر صوبوں کی نسبت پیچھے ہے اس کی بنیادی وجہ یہاں شعبوں پر سرمایہ کاری کانہ ہونا ہے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کا دارومدار سرکاری ملازمت پرہے کسی بھی محکمہ کیلئے جب آسامیوں کا اعلان کیا جاتا ہے تو اعداد وشمار سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی تعداد میں باصلاحیت،ہونہارنوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود روزگار سے محروم ہیں۔ مگر شکوہ کس سے کیا جائے کہ سرکاری محکموں کے علاوہ دیگر شعبوں میں روزگار کے مواقع نوجوانوں کیلئے کیوں پیدا نہیں کئے جاتے۔ بہرحال یہ دعوے ہر دور میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ بلوچستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، مختلف شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کیلئے پالیسیاں بنائی جارہی ہیں،وفاقی اور صوبائی حکومت سنجیدگی کے ساتھ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی پر خاص توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے محض طفل تسلیاں دی جارہی ہیں کسی ایک آدھ شعبہ کی مثال دی جائے جہاں روزگار پیدا کرنے کیلئے سرمایہ کاری کی گئی ہو، جبکہ دو سالوں کے دوران اتنے نوجوانوں کو روزگار فراہم کی گئی ہے اور آنے والے دوسالوں میں اس کی شرح کتنی ہوگی چونکہ کچھ ہے نہیں تو کس طرح سے اعداد وشمار دیئے جاسکتے ہیں البتہ دعوے ضرور کئے جاسکتے ہیں جو ہر حکومت وقت کا وطیرہ رہا ہے اور روایتی طرز حکمرانی کا حصہ بھی۔