دہائیوں سے وفاقی اورصوبائی ادارے شجر کاری کی مہم بھر پور طریقے سے چلاتے آرہے ہیں۔مگراس شجر کاری کا ملک بھر میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا جتنا ہونا چائیے تھا۔ماضی میں یہ دیکھنے کو ملا کہ اخبارات اور میڈیا میں افسران اور حکمرانوں کی پبلسٹی ضرور ہوئی مگر متعلقہ حکام اس مہم کے بعد سب بھول گئے اور شجر شجر نہیں رہے ، دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر درخت سوکھ گئے اور یوں پوری محنت ضائع ہوگئی۔
Posts By: اداریہ
بلوچستان کی ترقی، سیاسی مداخلت کے بغیر
بلوچستان ایک وسیع وعریض صوبہ ہے جس کی آبادی منتشر ہے یقیناًایسی صورت میں شہریوں کو سہولیات کی فراہمی ایک مشکل امر ہے مگر ناممکن نہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں کا جائزہ لیاجائے تو وہاں تمام شہری سہولیات دستیاب ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے وہاں کی آبادی اورجغرافیہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے روڈ میپ تیار کیاجاتا ہے جس میں ماہرین کو شامل کیاجاتا ہے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوسکیں۔
خطے میں ا من کا خواب
افغانستان میں امن و استحکام اور طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے تاہم بعض معاملات کے بارے میں اتفاق رائے کی کوشش کی جارہی ہے ان میں افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء، اس کے لیے ٹائم فریم اور اس دوران عبوری انتظامیہ کے بارے میں اتفاق رائے کے معاملات شامل ہیں، فریقین نے مذاکرات کے دوران بات چیت کے عمل کو خوشگوار قرار دیا اور یہ تسلسل جاری ہے ۔
ناقص معاشی منصوبہ بندی، غریب عوام پر بوجھ
پیٹرول، ایل پی جی اور بجلی کے بعد درآمدی ایل این جی کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی( اوگرا) نے اپریل کے لیے درآمدی ایل این جی کی قیمت بھی بڑھا دی۔ سوئی نادرن اور سوئی سدرن کے لیے گیس کی قیمت میں 0.27 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ کیا گیا ہے۔اوگرا کی جانب سے سوئی نادرن کے لیے گیس کی قیمت 10.57 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ سوئی سدرن کے لیے گیس کی قیمت 10.52 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔
تعلیمی ایمرجنسی، طلباء کورسز سے محروم
بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی گزشتہ حکومت کے دور میں نافذ کی گئی تھی جس کیلئے اربوں روپے مختص کئے گئے تھے جبکہ موجودہ حکومت نے بھی اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے تعلیمی ایمرجنسی لگائی ہے ۔
بلوچستان میں مضبوط بلدیاتی نظام
مقامی حکومتوں کا معاملہ اختیارات کی تقسیم کا ہے۔ہمارے یہاں گزشتہ 70سالوں کے دوران اختیارات وزیراعظم ،وزرائے اعلیٰ کے پاس رہے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے تمام باشندے ‘ خواہ کوئی ہو، ان کے ماتحت اور زیر نگیں رہے جو کہ غیر جمہوری رویہ ہے۔
سی پیک ، بلوچستان کی حقیقی شرکت داری
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں میں گوادر فری ٹریڈ زون سمیت پانچ منصوبے خاص کر شامل تھے،جن میں گوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ کا قیام،مقامی افراد کیلئے50 ہزار ملازمتیں ، گوادر میں 150 ارب روپے کی لاگت سے سڑکوں کی تعمیر،300 بستروں پر جدید ہسپتال کا قابل ذکر ہیں ۔اقتصادی راہداری منصوبوں میں فری ٹریڈ زون ،بزنس کمپلیکس آف گوادرپورٹ اتھارٹی، پاک چین پرائمری اسکول، دوڈیمز اورگوادر یونیورسٹی شامل ہیں‘ اس کے علاوہ37 ارب ڈالر توانائی کے شعبے کیلئے مختص کیے گئے تھے۔
بلوچستان کی پسماندگی کا سبب ، کرپشن
بلوچستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں اکثر مخلوط حکومت بنتی آئی ہے۔ ایسی صورت میں نظام کی بہتری کی گنجائش کم ہی رہتی ہے کیونکہ پھر شخصی مفادات زیادہ اہمیت اختیار کرتے ہیں۔ پنجاب،سندھ اور کے پی کے کی نسبت بلوچستان میں سیاسی ڈھانچہ یکسر مختلف رہا ہے ۔ بلوچستان کے اسی سیاسی کلچر نے پسماندگی اور کرپشن کو دوام بخشااور اس طرح صوبہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہا۔
وفاقی پی ایس ڈی پی، بلوچستان حکومت کا مطالبہ
بلوچستان کو ترقی دینے کے دعوے اور اعلانات تو ہمیشہ ہر حکومت اور ہر دور میں سنائی دیتی رہی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ علاج معالجہ ، تعلیم ، روزگار کی باتیں تو خواب جیسی ہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی کی حقیقی تصویر بہت بھیانک ہے اور اس سے بھی بھیانک صورتحال یہ ہے کہ ہم اس کے بارے میں سننا ہی نہیں چاہتے، اسے دور کرنے کی کوشش تو دورکی بات ہے۔
بلوچستان بجٹ، عوام کو کیاملا
بلوچستان بجٹ کا جب تک تاریخی طور پر جائزہ نہیں لیاجائے گا، یہ رونا حکومتی واپوزیشن اراکین کی جانب سے جاری رہے گا ۔گزشتہ حکومت کے دوران بھی بجٹ سے شاید ہی کوئی خوش رہا ہے محض تقاریر اور تنقید سے کوئی راستہ نہیں نکلے گا اور یہ ذمہ داری حکومت بشمول اپوزیشن کی بھی ہے کہ ایک پلاننگ اور بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ہی بجٹ کے حقیقی مقاصدکو حاصل کیاجاسکتا ہے بلکہ عوامی مفادات کیلئے اسے خرچ بھی کیاجاسکتا ہے۔