بلوچستان عرصہ درا ز سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا شکار رہا ہے ظاہر ہے یہ حالات افغان جنگ کے بعد ملک میں برائے راست پڑے ہیں جو دہائیوں سے چلتا آرہا ہے بنیادی طور پر بلوچستان کی تاریخ انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے ہمیشہ دور رہی ہے بلکہ ملکی ڈھانچے اور معاشرے میں اس طرح کی سوچ کبھی پروان نہیں چڑھی بدقسمتی سے سابقہ چند پالیسیوں کی وجہ سے اس کے انتہائی برے اثرات ملک پر پڑے جو اس وقت دنیا کے ساتھ چلنے والی ایک پالیسی کا حصہ تھی مگر اب یہ حالات بدستور بدلتے جارہے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ 72 سالوں کے دوران جتنے بھی میگا منصوبوں مےں سرمایہ کاری کی گئی وہ سب کرپشن کی نذر ہوتی رہی ہیں جس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ۔ صوبہ کو ان منصوبوں سے محاصل کا نہ ملنا کسی حد تک حکومتوں کی کمزوری رہی ہے اور افسر شاہی اس کی بڑی وجہ بنی ہے ۔ بلوچستان مےں بننے والی ہر حکومت کی یہی خواہش رہتی ہے ۔
بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حالیہ پولیو کیسز رپورٹ ہونے کے بعد بلوچستان میں خصوصی پولیو مہم شروع کردی گئی ہے۔ بلوچستان کے7 اضلاع میں 7روزہ خصوصی پولیو مہم کے پہلے مرحلے میں کوئٹہ اور پشین میں مہم کا آغاز کر دیا گیا جبکہ آج یعنی28اگست سے نصیرآباد، جعفرآباد، جھل مگسی، صحبت پور اور 2 ستمبر کو قلعہ عبداللہ میں پولیومہم شروع کی جائے گی۔
بلوچستان کی قومی شاہراہیں خاص کر کوئٹہ تا کراچی جانے والی شاہراہ پر مسافرکوچز حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں، حالیہ چند ماہ کے دوران سب سے زیادہ حادثات لسبیلہ اور خضدار کی شاہراہوں پر پیش آئی ہیں جن میں اب تک درجنوں مسافر خوفناک حادثات میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
سی پیک منصوبہ جس کی بنیاد گوادر کی ساحل ہے جو اپنے محل وقوع کے لحاظ سے تجارتی اور دفاعی حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، چین پاک اکنامک کوریڈور سے قبل گوادر سی پورٹ کا مشرف دور میں سنگاپور کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد چائنا نے اس منصوبہ میں نہ صرف دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ عملی طور پر سرمایہ کاری بھی شروع کی۔ یہ بات الگ ہے کہ اب تک گوادر کے متعلق سابقہ وزراء اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ قابل اطمینان اور تسلی بخش نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں حالات انتہائی خوفناک صورتحال اختیار کرتے جار ہے ہیں، جمعہ کے روز نماز جمعہ کے بعد ہونے والے مظاہرے میں پُرامن مظاہرین کے خلاف بھارتی فورسز نے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے پیلٹ گن اور آنسو گیس کے شیل فائر کئے جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہوئے اس مظاہرے میں خواتین اور مردوں کی بڑی تعدادشریک تھی۔ نماز جمعہ کے بعد اجتماع میں شریک بڑی تعداد میں کشمیریوں نے کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔
بلوچستان میں ایک تو شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے خاص کر اندرون بلوچستان میں صورتحال انتہائی ابتر ہے کیونکہ وہاں سرکاری اسکولوں میں کوئی سہولیات نہیں، اسکول خستہ حالت میں ہیں بعض علاقوں میں تو اسکولوں کے چھت تک موجود نہیں،بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔انہی عدم سہولیات کے باعث بچوں میں تعلیم کی عدم دلچسپی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
بھارتی حکومت مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں،کرفیومیں نرمی کردی گئی ہے، گرفتاریوں کے متعلق جھوٹ سے کام لیا جارہا ہے، پُرامن مظاہرین کے خلاف ہتھیاروں کے استعمال پر بھارتی حکومت کی ہدایت کے مطابق بھارتی میڈیا بھی جھوٹ سے کام لے رہی ہے اور کچھ اور ہی نقشہ پیش کیاجارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے معاملے پردنیا بھر میں تشویش پائی جارہی ہے کیونکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آزاد حیثیت ختم کرکے خطے میں ایک نیا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔دوسری طرف گزشتہ کافی عرصے سے خطے میں امن و امان کے قیام کیلئے افغان امن عمل کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ دیرپا امن قائم ہونے کے ساتھ خطے میں استحکام برقرار رہے مگر بھارتی حالیہ جارحیت اور جنگی جنون نے تمام انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے مظالم کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں جو کہ پوری دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنے گا۔
مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پر آج پوری دنیامیں بھارتی جارحانہ رویہ کے خلاف انسان دوست سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور بھارتی مظالم پر آواز بلند کررہے ہیں جس سے مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ عالمی سطح پر اجاگر ہورہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں سخت کرفیو اور بھاری بھرکم فوج کی تعیناتی کے باوجود کشمیری سڑکوں پر نکل رہے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ نڈر وبہادر کشمیری اپنی آزادی کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔