بلوچستان وسائل سے مالا مال مگر ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے جہاں پر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لا محدود مواقع موجود ہیں بلوچستان میں سرمایہ کاری کیوں نہیں ہورہی ہے یہ ایک اہم ترین سوال ہے جو بلوچستان کا ایک عام باشندہ حکومت وقت سے کرتا آرہا ہے ۔ حالیہ سالوں میں کئی وزرائے اعلیٰ نے یہی بات بار بار دہرائی کہ وہ بلوچستان میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہتے ہیں،
وفاقی حکومت اور اسکے چند وزراء صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ چکے ہیں اور عمران کی دھمکیوں اور احتجاج سے تنگ آ کر اس کے ساتھ تصادم کی راہ پر گامزن ہیں ۔ان تمام وزراء کی اخبار نویسوں سے بات چیت سے معلوم ہوتاہے کہ حکومت عمران خان اور اسکے اہم ترین ساتھیوں کو جلد گرفتار کرے گی اور تحریک انصاف میں متحرک کارکنوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کے اشارے ہیں
وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے ان انسانی دشمنوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے جو جعلی ادویات تیار کرتے ہیں اور میڈیکل اسٹورز کے مالکان یہ جانتے ہوئے کہ یہ جعلی اور غیر معیاری ادویات ہیں ان کو فروخت کرتے ہیں
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بلوچستان ملک کا انتہائی پسماندہ ترین صوبہ ہے صوبے کے طول و عرض میں بنیادی سہولیات نا پید ہیں اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کا امتیازی سلوک اور مقامی انتظامیہ کی عدم دلچسپی ہے ۔ امتیازی سلوک کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ بلوچستان کے 29اضلاع سوئی گیس کی سہولت سے محروم ہیں ۔
حالیہ سالوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان میں مافیا انتہائی طاقتور ہے اور حکومت بالکل بے بس ۔ مافیا نے یہ تہیہ کررکھا ہے کہ کسی طرح سے بھی اچھی حکمرانی کو بلوچستان میں رواج نہیں دینا ہے اگر حکومت کے چند ایک اہلکار اچھے کام کریں تو ان کا خاتمہ کرنا ہے ، کوئی بھلا کام نہیں ہونے دینا ہے ۔ یہی ایک مسئلہ وزیر اعلیٰ کے سامنے رکھا ہوا ہے کہ مافیا کو یہ اجازت کیوں دی گئی ہے کہ حکومت کے اچھے کام کے اثرات کو زائل کرے
کوئٹہ اور اس کے گردونواح سے مسلسل اطلاعات آرہی ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن رضا کارانہ بنیاد پر واپس افغانستان جارہے ہیں ۔ اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ایک نمائندہ نے کوئٹہ میں کی اور کہا کہ بڑی تعداد میں افغان مہاجرین تیاریوں میں مصروف ہیں کہ وہ تمام مراعات لے کر وطن واپس جائیں بجائے
پورے ملک میں کم و بیش یہ ایک متفقہ رائے بن رہی ہے کہ فاٹا یا قبائلی علاقوں کو کے پی کے صوبے میں ضم کیاجائے صرف غیر اہم قوتیں جن میں جے یو آئی بھی شامل ہے اس کے خلاف تحفظات رکھتی ہیں آئے دن مولانا فضل الرحمان جلسے کرتے رہتے ہیں اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے رہتے ہیں جس میں وہ دبے الفاظ میں اس بات کی مخالفت کرتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کو کے پی کے میں ضم کیاجائے۔