بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا یہ سیاہ ترین دن تھا جب گزشتہ روز4معصوم خواتین کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ ہزاروں سال کی بلوچ تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی مثال ملتی ہو کہ مسلح افراد نے خواتین کے خلاف ہاتھ اٹھایا ہومگر اب یہ کیا کہ خواتین کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ گزشتہ روز کرانی جانے والی مسافر بس کو اسلحہ کے زور پر روک کر دہشت گردوں نے بس میں سوار ہوکر چار خواتین پر اندھا دھند گولیاں برسائیں اور ان کو ہلاک جبکہ ایک خاتون کو شدید زخمی کردیا۔
سابق صدر پاکستان اور فوج کے سابق سربراہ نے ایک بار پھر جمہوریت کے خلاف لب کشائی کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے لئے جمہوریت موزوں نہیں ہے اس کے لئے صرف اور صرف فوجی آمریت یا بادشاہت موزوں ہے۔ شاید سابق جنرل پرویز مشرف یہی کہنا چاہتے تھے اور وہ کہہ گئے۔
یہ بات اب حقیقت بن چکی ہے کہ موجودہ بحران ملک کا سنگین ترین بحران ہے اور یہ 1971ء کے بحران سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ 1971ء کی جنگ کے دوران افغان اور ایران کی سرحدوں پر قابل اعتماد امن تھا اور وسیع سمندری حدود میں بھی کسی قسم کے خطرات نہیں تھے۔
پاکستان ایک بڑے بحران سے گزررہا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے پاکستان کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کو اس کا ادراک نہیں ہے۔ وہ ابھی تک اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سے ملنے اور بات کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو بالکل یہ ادراک نہیں ہے کہ ملک کتنے بڑے بحران سے گزررہا ہے۔ معاشی حالات خراب سے خراب تر ہیں۔ معاشی حالات کی خرابی کا اندازہ اس کی گرتی اور ڈوبتی معیشت سے لگایا جاسکتا ہے
پہلے اڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کا ڈرامہ اور بعد میں سرجیکل اسٹرائیک سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ بلکہ دونوں ممالک کو تیسری پاک بھارت جنگ کے قریب تر کردیا ہے۔ اس میں بھارت کا بڑا ہاتھ ہے۔ شاید بھارت پورے خطے میں کشیدگی میں اس لئے اضافہ کرنا چاہتا ہے کہ اس سے پاکستان کے معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہو۔
اڑی سیکٹر میں ہلاکتوں کے بعد دہلی میں زبردست سرگرمیاں دیکھنے میں آرہی ہیں اور بھارتی میڈیا اس کو تفصیل کے ساتھ رپورٹ کررہا ہے سب سے اہم اجلاس وزیراعظم مودی کی صدارت میں ہوا جس میں بھارت کے اہم ترین وزراء اور آرمی چیف نے بھی شرکت کی جس کے متعلق بتایا گیا کہ اس میں پاکستان کے خلاف جوابی کارروائیوں کا منصوبہ زیر بحث آیا ۔
اڑی سیکٹر میں فوجی کیمپ پر دہشت گردانہ حملوں میں 17فوجی اہلکار ہلاک اور بیس افراد زخمی ہوئے ۔یہ حملہ نا معلوم مسلح افراد نے کیا ، ابھی تک کسی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن واقعہ کے فوراً بعد بھارتی حکام اور بھارتی حکومت نے یہ دعویٰ کردیا کہ اس میں پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں اور اس میں لشکر طیبہ جو ایک جہادی تنظیم ہے اس حملے کامرکزی کردار ہے۔ اس کے فوراً بعد پورے بھارتی میڈیا نے پاکستان اور اس کی مسلح افواج کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا
سندھ نے تھانہ کلچر پنجاب سے ون یونٹ کے دوران مستعار لیا ۔ سندھ پولیس میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور بدعنوانی 1955کے بعد سے شروع ہوئی ۔ پنجابی پولیس افسران نے چارج لینے کے بعد جھوٹے مقدمات ‘ جھوٹے مقابلے، چور ڈاکو پالنے کا کام ابتداء ہی میں شروع کردیا تھا
مہمند ایجنسی میں طالبان کے ایک گروہ نے مسجد کے اندر نماز جمعہ کے دوران خودکش حملہ کیا جس میں 28افراد جاں بحق اور 31افراد زخمی ہوئے۔ طالبان کے ایک گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے کہ یہ خودکش حملہ انہوں نے کیا ہے ۔
زمانہ قدیم سے تھانہ کلچر پر پنجاب کی اجارہ داری رہی ہے ۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد پنجاب سے افسران اور پولیس کے سپاہیوں کو ون یونٹ کے نام پر دوسرے صوبوں میں بھی تعینات کیا گیا ۔کے پی کے کی حکومت، عوام اور انتظامیہ نے اس کی زبردست مزاحمت کی اس لیے وہاں کم سے کم پنجابی افسران تعینات کیے گئے ۔ مگر اس کے باوجود پاکستان پولیس سروس کے نام پر اعلیٰ عہدوں پر پنجابی افسران کو تعینات کیا گیا